Tuesday 19 April 2016

شاہی نباتیاتی باغ کیو ..Royal Botanic Gardens Kew

شاہی نباتیاتی باغ کیو
Royal Botanic Gardens Kew
پروفیسر سید ارشد جمیل

تصویری تصوراتی اور خاکہ جاتی ذرائع مطالعہ اور تدریس کے لئے کافی موثر ذرائع شمار ہوتے ہیں لیکن حقیقت کا ادراک اور کامل ابلاغ مشاہدہ کے بغیر انتہائی مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے نبیوں کو مختلف نوعیت کے مشاہدات سے گزارا۔ حضرت نوح ؑکو ایک عظیم وسیع و عریض سیلاب کے عذاب سے بچانے اور پناہ ایزدی میں آنے کا مشاہدہ کرایا۔ حضرت ابراہیم ؑکو ایک بہت بڑے دھکتے  ہوئے آگ کے الائو سے بحفا ظت نکلنے کا مشاہدہ کرایا۔ یہ اگرچہ دو طرفہ مشاہدہ تھا کہ کافر و مشرک انہیں  آگ سے زندہ و سالم  بحفاظت نکلتے دیکھ کر ایمان لاتے الٹا وہ اور گمراہ ہو گئے۔ اسکے علاوہ حضرت ابراہیم کے تقاضہ اطمنان (ارنی کیف  تحی الموتیٰ ) کی خاطر چار پرندوں کے مختلف اجزاء چار پہاڑوں پر رکھوائے پھر انہیں بلایا تو وہ زندہ آ موجود ہوئے۔ حضرت موسٰی کو کوہ ِ طور پر تجلی دکھائی جسکی وہ تاب نہ لاسکے حضرت زکریا کو حضرت مریم کے پاس بے موسم کے پھلوں کا مشاہدہ کرایا گیا۔ حضور اکرم کو معراج پر بلایا گیا۔ جنت و دوزخ کے تمثیلی مشاہدات کرائے گئے سدرۃ المنتہٰی ( پر بے مثال الفاظ کی قید سے مُبرا ) مشاہدہ کرایا گیا۔ کسی  مشاہدہ کا صحیح فہم شاہد کے مقام اور اسکی صلاحیتوں کے مکمل تعین پر نیز مشہود کے بارے میں ابتدائی معلومات سے ہے انبیا ئے کرام کے مشاہدہ اور شاہد و مشہود کے تذکرے سے متعلق میرا مقصود متشابہات کی کھوج میں پڑنا یا نعوذ باللہ جرح کرنا نہیں ہے ۔ بلکہ انسانی مطالعہ و تدریس کے عمومی ذرائع کی کمزوری اور کم فہمی واضح کرنا مقصود ہے۔ ڈگری کلاسز کی تدریس کے دوران نطام درجہ بندی نباتات ، باٹنی کے پیریڈ میں جوزف ڈالٹن ہوکر اور کیو شاہی نباتاتی باغ کا تذکرہ ہوتا تھا۔ جسکے بارے میں لارنس کی
)Taxonomy of Vascular Plants (
علاوہ ازیں بعض سائنسی جریدوں کے مطالعہ و مشاہرے کے پس منظر سے پڑھاتے رہتے تھے۔ لیکن خواہش تھی کہ اسکے بارے میں کچھ مزید ایسی معلومات ہوکہ ذہن کی پیاس بجھے اور تسلی ہو جائے۔ کمپیوٹر اگرچہ پیاس بجھانے  پیاس بجھانے کا فائر انجن ہے تاہم زندہ شے کوزندہ دیکھنے کا جو لظف ہے وہ کچھ اور ہی بات ہے۔ بہرحال آج کل کمپیوٹر کے بغیر گزارہ بھی نہیں۔
کیو باغ کے حقیقی بصری مشاہدے کے بغیر جریدی تصاویر بالخصوص کلاس ہا ئوسز اور گرین ہائوسز کی نقشہ گری کے ذریعہ طلبا کو مافی الضمیر سے آگاہی دیتا رہا۔
تیسری بار بیٹے ڈاکٹر فرخ جمیل کے پاس برطانیہ جانے کا موقع ملا تو اس بار شاہی نباتیاتی باغ کیو کا حقیقی بصری مشاہدہ کا موقع ملا۔ نہ دیکھا تو شداد کے باغ کا تصور خاکہ اور خیالی تصویر ذہین میں ہے۔ یہ بھی تخیل کی دنیا میں جلوہ گر ہوتا۔ یہ شداد (بخت نصر ) بھی عجیب بادشاہ تھا اس نے سیڑھیوں پر سیڑھیاں اور ان پر درخت لگائے جو ہوا میں معلق معلوم ہوتے تھے۔ دنیا بھر سے لٹکنے والے پودے اور بیلیں منگائیں جو معلق باغ
Hanging Garden
کا تقشہ بناتے تھے۔ بادشاہ تو ہوتے ہی عجیب ہیں شاہ جہاں کو دیکھئے جس نے تاج محل بناکر غریبوں کی دولت کے سہارے انکی محبت کا مذاق اڑایا تھا۔ اسی طرح برطانیہ کے شہنشاہوں نے محکوم ع غلام قوموں کی دولت سے یہ نادر روزگار باغ تقریبا عجوبہ بنا دیا ۔ اس میں بھی اور ہر فن کی تخلیق میں کسی نہ کسی تخلیقی صلاحیتوں کے ماہر کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ماہر یا ماہرین کے تذکرے سے پہلے نوائے فطرت بزبانی ماہرین آثار قدیمہ ملاحظہ ہو۔ دریائے ٹیمز کے مسلسل اور صدیوں راستہ تبدیل کرتے رہنے کے بعد آخر قرار آجانے پر یہ نظارہ گاہ ِ جمال و گلشنِ روح پرور قدرت خداوندی سے جلوہ افروز ہوا ۔ گویا خلاقِ عالم ہی اسکا اصل فنکار ہے غالبا اکبر بادشاہ کی ایک بیوی نے انارکلی کو دیکھ کر کہا تھا کہ
؏ حسن دل آرام راحاجتِ مشاطہ نیست۔

یعنی جو حُسن دل کو سکون پہنچائے اسے بنائو سنگھار کی ضرورت نہیں۔ اس وقت بیوٹی پارلر نہیں تھے ورنہ وہ یہ مصرعہ نہ کہتی۔ بہرجال حسنِ فطرت کو بھی سنوارنے اور سجانے کی ضرورت ہے۔ گلستان ِ کیو
(Kew)
کے بیوٹیشن یعنی مالی اور باغبانوں کا تذکرہ تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ سر لارڈ کیپل جان اسکی بیوی ڈوروتھی بینٹ ، شاہان جارج اول دوم سوم۔ پرنسز کیرولائن ، پرنسزآف ویلز کی کاوشوں سے قطع نظر بیشتر ماہرین ِ تعمیرات و نباتات و باغبانی کا پسینہ اس کے چپہ چپہ میں پیوست ہے ان افراد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کے نامون کا تذکرہ کیو گلشن کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ رچرڈ بینٹ ، کیپا بلٹی  برائون ، چارلس برج مین ، ولیم چیمبرز(گلا س ہائوسز کا نقشہ گر) شہزادی اوگسٹا ، ڈیسیمس برٹن ( گلاس ہائوسز اور بلوری تحفظ گاہوں کا معمار شیشہ گر)رچرڈ ٹرنر (گلاس ہائوسز اور بلوری تحفظ گاہوں کا معمار آہن گر) ، سر جوزف بنکر، سر ولیم ہوکر اور برصغیر کے پلانٹ ٹیکسا نومی کے اساتذہ کے روحانی استاذ سات جلدوں پر مشتمل فلورا آف برٹس انڈیا کے شریک مصنف ( دوسرے مصنف جناب بینتھم) سر جوزف ڈالٹن ہوکر وہ اسمائے گرامی ہیں کی جن کی کاوشوں کو دیکھ کر انکی مہارت ِ علم و فن انکا ذوق و شوق انکی تعمیرات میں سلیقہ مندی اور سب سے بڑھکر انکی حسِ فنونِ لطیفہ کی انسان داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیو گارڈن کی ترئین  میں کیپل خاندان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ انکی آرائش و توسیع سے متاثر ہوکر انکے عہد کا ایک فنکار اپنی کتا ب میں شہادت دیتا ہے۔
It was a close team obsession.
یعنی یہ اجتماعی لگن کا مظہر تھا۔
موجودہ شاہی نباتیاتی باغ کیو میں پام ہائوس۔ سرخ اینٹوں سے بنا قصر گلاس ہائوس کے علاوہ پگوڈ، مندر ، مسجد ، کے درجہ اول کی عمارات اور (۳۶) درجہ دوم کی بین الاقوامی ساختیں موجود ہیں۔ سن ۱۸۴۰ ء میں شاہی باغ کیو ملکہ وکٹوریہ کی ناراضگی کے باوجود عوامی تحویل میں دے دیا گیا اور اسکے پہلے ڈاریکٹر سر ولیم ہوکر مقرر ہے۔ سن ۱۸۶۵ء میں انکے فرزند جوزف ہوکر دوسرے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ باغ کو سن ۱۸۴۰سے ۱۸۸۰ کے دوران بے مثال ترقی حاصل ہوئی ۔ پچاس ہزار اقسام کے پودوں کا یہ باغ اپنے ایک گلاس ہائوس میں دنیا کا سب سے اونچا پام ( اندرون خانہ) رکھتا ہے۔ یہاں شہزادی ویلز تحفظ گاہ۔
Conservatory
میں لا تعداد اقسام کے تھوہر ناگ پھنی ہنس راج فرن کِرم خور پودے اور مشہوٹیٹان سوسن جسکا پھول قد آدم جتنا ہوتا ہے۔ آرکڈ کی اقسام ٹوکریوں میں لٹکتی ہوئی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
Titan Arum
یا
Amorphophallus titanmum
سن  ۱۸۷۸ء میں سماٹر اسے لایا گیا اسنے سن ۱۸۸۹ء میں پھول نکالا ۔ لوگوں کا اشتیاق ِ دید انتہا کو پہنچا ہو ا تھا۔ ہزاروں ”نظارہ باز“ (”ناظرین “ کی اصطلا ح میں شوق کی انتہا کا عکس نہیں ہوتا) دیدار کے لئے جوق در جوق آئے۔ پھول کی بو سڑی ہوئی مچھلی اور جلی ہوئی چینی کی بدبو سے ملتی جلتی تھی جسکی وجہ سے بعض مشاہدین دور دور ہی رہے۔ پھول پتے سمیت قد بیس ۲۰ فٹ تھا۔ دیکھنے کے لئے سیڑھی لگا کر چڑھنا پڑتا تھا۔ ایک گلاس ہائوس میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ صدر زرداری کے شہر نواب شاہ (ضلع بے نظیر آبادکا صدر مقام) کے مقامی باغ خوجہ گارڈن کے گرین ہائوس میں داخل ہوگئے ہیں ایسے گریں ہائوس مچھر دانی کی جالی سے جوہرے رنگ کی ہوتی ہے بنائے جاتے ہیں۔ کیو کے گلاس ہائوس میں وہی گرمی وہی حبس اور تالاب میں ( نیلوفر ) کنول یا
Lotus
کے پھول کھلے ہیں یہ گلاس ہائوس اگرچہ نسبتاًچھوٹا ہے لیکن اپنی آب و تاب زیبائش اور کشش میں کسی بھی گلاس ہائوس سے کم نہیں یہ استوائی نیم استوائی خطوں کی سوسن و نرگس و نیلوفرکی خوبصورت آماجگاہ ہے۔ کیو گارڈن میں سبزہ تو ہے چہار جانب لیکن جگہ جگہ درخت اپنی نام تختیوں کے ساتھ ایستادہ ہیں جس میں نباتاتی خاندان بھی لکھا ہوتا ہے۔ پھولوں کے قطعات جگہ جگہ سلیقہ سے سجائے ہوئے تھے۔ فیملی ایسٹریس ( سورج مکھی خاندان ) فیملی لیمی ایسی( پودینہ و ناز بو کا خاندان) ، فیملی ملی ایسی ( سوسن و نرگس کا خاندان) فیملی وریسینی کے سیکڑوں خاندانوں کے پودے اور درخت اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ گلابوں کے لئے مکمل باغ
Rose Garden
بھی قابل ِ دید خطۂ ارضی ہے۔ یہاں گول کیاریا ں اور بیلیں چڑھانے کی محرابیں بنی ہوئی ہیں۔ ان گنت گلابوں کی قسمیں اور رنگ کہ جنکا بیان قلم  کی طاقت سے ماورا ہے یہاں جلوہ گر دیکھے۔ ڈیلیا۔ لیمیم۔ ازیلیا۔ زینیا۔ کرائی سینھی مم ( گل دائو دی) دربنیا، پٹونیا، اگاپنتھس، ُفشیا، آرکڈز، اور بے شما رنگ برنگے پھول قطعات میں لہلہا رہے تھے۔ موسم قدرے گرم تھا ( بقول اہل برطانیہ) اس لئے بعض پودے اپنی بہار دکھلا کر رخصت ہوگئے تھے۔ سائنسی ناموں کی کثرت سے سمع خراشی دور کرنے کےلئے علامہ اقبال کا ایک شعر ادنٰی تصرف کے بعد حاضر ہے۔
؏ پھول ہیں گلشن میں پریاں قطار اندر قطار--------------- اودے اووے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن
یہ تین سو ایکڑ کا باغ ایک مرتبہ کے دورے میں مکمل دیکھنا بہت مشکل کام ہے جبکہ ناظر کو کوئی وھیل چیئر پر چلا رہا ہو۔ ڈاکٹر فرخ جمیل ( راقم کے فرزند) نے بڑے حوصلے سے ساڑھے تین گھنٹے نگاہوں کی راہ سے قلب جگر کو سکون پہنچایا۔ مکمل دیکھنے کی آرزو باقی ہے۔
؏  ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؏ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
     بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے  
سائنس دانوں اور ماہرین ِ تعمیرات و باغبانی و ثقافت کی کوششوں کی داد دیتے ہوئے یونیسیف
UNICEF
نے عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے ایسے نادر زمانہ شاہکار ارضی
Landscape
کا یہ حق بھی تھا۔
اسکے اولین کلکٹر مین اولین ڈائریکٹر ولیم ہوکر اور موجودہ ڈائیریکٹر پروفیسر اسٹیفن ہیں۔
اختتام تذکرۂ سے پہلے عرفی کا ایک شعر اور راقم کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔
؏ ما را خیالِ نرگس جاور کفایت است
  گر گل بدست مانہ رسد بو کفایت است


ترجمۂ راقم : مجھکو خیال نرگس جادو ہی کافی ہے۔ ۔۔ گر پھو ل میرے ساتھ نہیں بو ہی کافی ہے۔ 


نوٹ: والد مرحوم نے یہ مضمون اگست ۲۰۱۱ میں مجھے دیا تھا میں نے ٹائپ تو اسی وقت کر لیا تھا مگر پروف ریڈنگ نہ کر سکا۔ اس دن سے یہ مضمون ایسے ہی پڑا رہااور مجھ پہ ایک قرض کی صورت موجود رہا،
 آج میں نے سوچا کہ من و عن ہی بلاگ پہ ڈال دوں شاید کوئی پڑھنے والا تصحیح کر دے۔ حسن جمیل ۱۹ اپریل ۲۰۱۶۔ 

Friday 1 March 2013

پروفیسر سید ارشدجمیل کی وفات پر مختارحسین شارق گلشنِ اقبال کراچی


وہ شجرِسایہ داریہاں اب نہیں رہا
کہتےتھےجس کو پیار سے ارشدجمیل ہم
میرے لۓوہ باپ کی جیسے شفیق تھے
اپنی مثال آپ تھے استادِمحترم
فطرت میں انقلاب تھا انکے رچاہوا
موضوع یہی تھاایک جو مل جاتی کوئ بزم
تلقینِ حق کو اپنا بنایا شعارتھا
اللہ کے فضل سے ہوا یہ نہ کالعدم
منزل تھی انکی رب کی رضا کاحصول بس
اٹھتےتھے صرف انکے اسی واسطے قدم
شارق کی یہ دعا ہے خدائے کریم سے
ہوجائیں بارگاہ میں یہ اسکی محترم

(والد محترم پروفیسر سید ارشد جمیل 19 فروری 2013 بروز منگل صبح 11 بجے  اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ اللہ انکی مغفرت فرمائے اور انکے درجات بلند کرے اور ہمیں انکے نقشِ قدم پہ چلنے کی توفیق دے)آمین۔ حسن جمیل





Saturday 15 December 2012

معلوم دہشت گرد

معلوم دہشت گرد
ہر شخص کہ رہا ہے پس پردہ کون ہے
پیغام مل گیا انہیں بین السطور کل
نزلہ گرا ہے رونق  بازار شہر پر
فی الفور ہوگیا نئے پیغام پر عمل
تیار متحد کے ہیں قاتل فساد پر
ماحول انتخاب سے پہلے ہو پر خطر
ڈر کر گھروں سے نکلیں نہ باہر مخالفین
تا وہ لگائیں مہریں دھڑا دھڑا پتنگ پر
پروفیسر سید ارشد جمیل

Saturday 8 December 2012

قصرِ جن

بات  آئی نہیں سمجھ   میں   کچھ
ایک گھر میں مکیں ہوں چھ چھ سو!
فو ج  کو  حکم  ہے   ججوں  کا   یہ
جائو   آنکھوں  سے قصر ِ جن  دیکھو
پروفیسر سید ارشد جمیل ؔ

Saturday 6 October 2012

قطعہ


 

تم نے اُستاد کو نہ  دی  وُقعت

یوم ِ استاد  کیوں  مناتے  ہو

آج کرتے ہو کیوں سلام اِنہیں

سال بھر انکو  بھول جاتے   ہو

پروفیسر سید ارشدؔ جمیل

Thursday 4 October 2012

احتجاج

عاشقان ِ مصطفٰیؐ لاکھوں کریں گے احتجاج
سب مسلمانوں کی فکرِ دیں کا ہو گا امتزاج
ایک انبوہ ِ کثیر اور ایک سیلاب ِ عظیم
گنبدِ قائد پہ رکھے گا نبیؐ کے دیں کی لاج
پروفیسر سید ارشدؔ جمیل
03218731547

Thursday 13 September 2012

حجاب


 پردہ خدا کے حکم سےعورت پہ فرض ہے
یہ اک شعار  حرمتِ   دینِ مبین ہے
ملت پہ فرض ہے کہ کریں عورتیں حجاب
رب کی رضا بطاعت صدق الا مین ہے
پروفیسر سید ارشد جمیل