Saturday 1 August 2009

عظت ِ انصاف کی اعلٰی مثال نیز دنیا کا خاتمہ-پروفیسر سید ارشد جمیل

لیک ڈسٹرکٹ کے پُر لطف سفر کا احوال پھر ملتوی کرنا پڑا اسلئے کہ پاکستان میں عدلیہ عظمٰی نے ایک اہم فیصلہ دیا ہے۔ ماضی میں عاصمہ جہانگیر کیس میں بھی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا اور اسکے نتا ئج کا اطلاق ماضی میں ہوجانے والے احکامات و تعمیلات پر نہیں ہو سکا۔ کچھ اسی نوعیت کا آج کا فیصلہ ہے۔ البتہ ۳ نومبر ۲۰۰۷؁ ء کو پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والے اور اصلی ججوں کو فارغ کر کے ہائی کورٹ اور سُپریم کورٹ میں اپنی مسندیں جمانے والے ججو ں کو اس فیصلہ نے فارغ کر دیا۔ اس خوف سے کہ کہیں پھر مارشل لاء نہ لگ جائے، فیصلہ میں پارلیمینٹ اور صدر کے عہدہ کو تحفظ دیا گیا ہے۔ اصولاً و عقلاً تو یہ تحفظ عجیب لگتا ہے۔ جب ڈوگر کا تقرر غیر آئینی ہے تو صدر کا حلف کیسے آئیید ہو سکتا ہے۔انہیں صرف یہ کرنا چاہیے کہ اس فیصلہ کے فوراً بعد افتخار چوہدری کے سامنے دوبارہ حلفِ صدارت اٹھا لیں۔ البتہ ان کی مدّ ت ِ صدارت پہلے حلف سے شمار ہو گی۔عدلیہ کا یہ اقدام تاریخ ساز اقدام ہے جس کی بہر حال جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ چار مصرعے اس صورتحال کے عکاس ملاحظہ ہوں۔
قطعہ 
ہو گیا ہے خاتمہ فرعونیت کے دور کا 
فیصلہ انصاف کی عظمت کی ہے اعلٰی مثال
ہو گئے فارغ وہ منصف جو تھے آمر کے حلیف 
آمرانہ ظلم کی شب کا ہوا آخر زوال
اردو کے ایک ناول میں ایک انگریزی نظم نظر سے گزری ، راقم نے اسے آزاد نظم کے قالب میں ڈھال دیا یہ نظم مفہوم کی ترجمانی پر مشتمل ہے۔ ملاحظہ ہو
دنیا کا خاتمہ
کہتے لوگ آخری جنگ جوہری رزم ہے
دنیا فشار ِ جوہر کی آتش سے ختم ہے
یا برف کی طرح سے بے جاں ہو یہ زمیں
حامی ہوں میں تو فلسفۂ ختمِ آتشیں
لیکن اگر ہو ختم یہ دو مرتبہ حیات 
پھر تو برف کی ٹھنڈ سے نفرت سے ہو نجات ۔ 
الخ