Friday 30 October 2009

کہیں روٹی کی قلت اورکہیں کاسمیٹکس کی کثرت۔ پروفیسر سید ارشد جمیل

تین سال قبل جب بلاد مغرب کو پہلی دفعہ دیکھنے کا اتفاق ہوا اس وقت بھی میر ی یہی رائے تھی کہ بے تحا شا سامان تعیش بازاروں میں بھر ا ہوا ہے ہر دکان انواع و اقسام کے قابل فروخت یا نا قابل فروخت مال سے بھری ہوئی ہے ۔ بلکہ ناقابل فروخت مال اشتہاری مہم کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے یہاں زندگی آسائشوں کا جھمیلہ ہے میک اپ سے متعلق کھانے پینے باورچی خانے غسل خانے اور باغیچہ سے متعلق ، ڈرائینگ روم سے متعلق بچوں کے کھلونوں ، لباس اور کاسمیٹکش سے متعلق الغرض زندگی یہاں جتنی ہمہ گیر اور کثیر پہلوہے اسی تعلق سے بازار اشیاء صرف ( اکثر اشیاء بلا ضرورت ) سے بھرے پڑے ہیں۔ کھانے کے اسٹوروں میں اشیاء خورد و نوش کا جو تکاثر ہے وہ اور دوسرے بازاروں میں مال اور خریداروں کی کثرت دیکھ کر سورۃ التکاثر کا حقیقی نقشہ نظر آتا ہے۔ سڑکوں پر ایک سے ایک قیمتی گاڑی فراٹے بھر رہی ہے افراد کی خاصی تعداد خوشحالی کے باعث موٹاپے(اوبیسیٹی)* کی طرف مائل ہے۔ جنکی چالیس فیصد تعداد موٹاپے کی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے یورپی ماہرین کی رائے کے مطابق اہل برطانیہ سب سے زیادہ فضول خرچ ہوتے جا رہے ہیں۔ اور اوبیسیٹی میں بھی یورپ کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑا ہوا ہے۔ آج سہ پہر جب سب اہل خانہ بازار گئے تو میں نے ایک کتا ب پڑھنے کے لئے ریک سے نکالی لیکن کتاب کھولنے سے قبل ہی چشم ِ باطن کے در وا ہوئے اور نبی ٔ مہربان کا اک فرمان نگاہوں کے سامنے سے لبادۂ شعر پہن کر جلوہ ٔ فرما ہوا۔
؏ سب سے برے مقام ہیں بازار شہر میں
ہیں ربِّ ذوالجلال کے غصہ کی لہر میں
حدیث کے الفاظ مِن و عن شعر کے سانچے میں اتارنا گرچہ ناممکن نہیں لیکن انتہائی مشکل ترین کام ہے اور یہی وجہ ہے کہ اضافی الفاظ کے استعمال سے ابلاغ بشکلِ ترجمانی شعر کی صورت میں ڈھتا ہے راقم اس سنگلا خ وادی سے گذرا ہے اور ۳۱۳ احادیث کو منظوم ترجمانی کی صورت میں ڈھال چکا ہے جو انشاء اللہ عنقریب کتابی شکل میں چھپ کر منظر عام پر آ جائیگی ۔
امداد اور کیری لوگر بل کے حوالے سے ایک قطعہ نیز بحران اور مہنگائی پر دو قطعات ملاحظہ ہوں۔
کیری لوگر بل
کیری لوگر بل ہے بربادی کا اک ساماں نیا
اب بلوچستان میں دریا بہے گا خون کا
کالے پانی اور را کے چالباز وساز باز
گردنیں اڑوائیں گے ہر شہر میں اب جا بجا
بحران
کہیں بم کے دھماکے ہیں کہیں بحران بجلی کا
کہیں آٹے نے کچلا ہے کہیں بحران چینی کا
یہاں ہے کال ہر شے کی نہیں قلت وزیروں کی
ہے لیڈر وہ مزے میں جو مقرب ہے پی او پی کا
پی او پی (پریذیڈنٹ آف پاکستان)

بچوں کی فروخت
پہلے کھا لیتے تھے وہ روکھی ہی روٹی پیاز سے
روٹی غائب ہوگئی اور پیاز نے پکڑا جہاز
کیا وہ بچوں کو کھلائیں گھاس پتے خاک دھول
بیچنے بچوں کو چل نکلے مجیدن اور نیاز
*Obesity

Tuesday 20 October 2009

میں اقبال اور پیرِ رومی پروفیسر سید ارشد جمیل

o اقبال تجھ سے معذرت کرتا ہوں پیشگی
کر دیں معاف بات کسی کو بُری لگی
برعکس فکر و دا نشِ حاضر سدا رہا
رجعت پسند دشمن ِ افکارِ ارتقا
تعلیم پیر ِ روم سے دہشت کی لے کے وہ
کہتا تھا مطلب دین کا ہے جنگ اور شکوہ
کیا مصلحت ہے دین کی سمجھا ئیے ذرا؟
اقبال نے سوال پیرِ روم سے کیا
جواب:-مصلحت در دینِ عیسٰی غار و کوہ
مصلحت در دینِ ما جنگ و شکوہ
o مغرب کے سخت خلاف ہے اقبال کا پیام
کہتا ہے اس کو عظمت ِ ابلیس کا نظام
نااہل عصر ِ نو کے ہیں یہ فلسفی تمام
سقراط روسو سارتر اور ڈارون بنام
ہیں کارل مارکس گو ئٹے فرائیڈ ابوجہل
دینِ ابولہب پر کرتے ہیں سب عمل
سنیئے حوالہ گفتۂ اقبال کا ذرا
موصوف نے کہا ہے یہ موصوف نے لکھا
بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بو لہبیست
یعنی کہ مصطفٰی سے ہے وابستگی ہی دیں
گر یہ نہیں تو ظلم سے بھر جائے گی زمیں
گمرہ ہیں فلسفی وہ ابو لہب کی طرح
جن کا نبی کریم سے کچھ واسطہ نہیں
o مغرب سے تھا اُسے تو خدا واسطے کا بیر
کہتا تھا کلچر انکا بہت جلد ہو گا ڈھیر
اسکا حوالہ اردو کا یہ شعر بھی سُنیں
پھر اسکے عقل و ہوش پر اپنا بھی سر دھنیں
اقبال: تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا
o کیسی بلا تھا چاٹ گیا یورپی علوم
کہتا تھا کچھ نہیں ہے یہ الفاظ کا ہجوم
اک روز اپنے پیر سے پوچھا کہ اے جناب
روشن ضمیر آپ ہیں اور عالم ِ کتاب
اقبال: پڑھ لئے میں علوم ِ شرق و غرب
روح میں اب تک ہے باقی درد و کرب
جواب ِ مرشد : دست ِ ہر نا اہل بیمارت کُند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کُند
یعنی: ہر نا اہل طبیب سے درد اور بھی بڑھا
نسخہ تو تیرے پاس تھا محروم کیوں رہا
ہر درد کا علاج عملِ اسوۂ حضور ؐ
آ میرے پاس میں کرونگا کرب تیرا دور
o اقبال کے دماغ میں ماضی کا تھا فتور
روشن خیال حال کا اسکو نہ تھا سرور
تہذیب ِ نو تو اسکی نظر میں فریب ہے
ملت کو دے رہا ہے عجب طرح کا شعور

اقبال : نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صنا عی مگر جھوٹے نگو ں کی ریزہ کاری ہے
o کہتا تھا یہ معاش کا چکر ہے اک فساد
کیا جانے اسنے دیکھے نہیں یورپی بلاد
اقبال: دورِ حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکرِ معاش
o کہتا ہے دل سے آدمی کہ نورِ حق گیا
یہ ہے یہودی فکر کا ہی سب کیا دھرا
اقبال : ایں بنوک ، ایں فکرِ چالاک ِ یہود
نور ِ حق از سینۂ آدم ربود
یعنی کہ بینک اور یہ چالاکی ٔ یہود
سینے میں نور ِ حق کا نہیں چھوڑتے وجود
o جمہوریت کے بارے میں فکرِ عجیب تھی
کیونکر ہو دو سو خر مغز سے فکرِ آدمی
اقبال: گریز از طرز ِ جمہوری غلام ِ پختہ کار ے شو
کہ از مغزِ دود صد خر فکر انسانی نمی آید
o کیوں کہ گیا وہ صاحب ِ ادراک و بصیر ت
شاید اسے پسند نہ تھی صنعت و حرفت
اقبال : احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
o جمہوریت کو کہتا ہے وہ مغرب کی غلامی
گنتی سے یہ کمزوروں کی بنتی ہے عوامی
اقبال: جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
o باتیں عجیب فلسفہ اقبال کا عجیب
رومی کا وہ مرید قلندر وہ حبیب
کہتے ہیں اسکو اہل جنوں آج بھی طبیب
ماضی پسند مسلک ٔ دہشت کا وہ نقیب
ذکرِ رجوعِ عظمتِ رفتہ سُنیں ذرا
آثار ِ قُرطبہ پہ کھڑے ہو کے یوں کہا
اقبال : آبِ روان ِ کبیر* تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا کسی اور زمانے کا خواب
گویا زمانہ لوٹ کے آئےگا پھر وہاں
تہذیبِ مصطفٰی ؐ کا چلن عام تھا جہاں
*اسپین کا ایک دریا

o ملت کو سمجھتا ہے وہ بھٹکا ہو ا آہو
کہتا ہے یہ رب سے میری سُنتا ہے فقط تو
محروم ِ تمنّا ہے دل ِ مردۂ مو من
مسلم کا بہے جادۂ اسلام پہ لو ہو
اقبال: یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت ِ صحرا دے
o کہتا ہے کہ تعلیم سے ملحد ہوئے ناداں
تعلیم کے اثرات سے شاعر ہے پریشاں

اقبال: ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

o ہے علم کا مقصد بھی عجیب اُس کی نظر میں
وہ علم نہیں جس نہ عرفاں ہو بشر میں
ہے یورپ و امریکہ کی تعلیم و تصنع
نفسانی ترقی ہے یہ شیطاں کے اثر میں
ہے فکر یہ اقبال کی رومی کے سحر میں
رومی : علم را برتن زنی مارِ بود
علم را بردل زنی یار ِ بود
کیوں کا م لیا علم سے تعمیر ِ بدن کا
لپٹا ہے تبھی سانپ تجھے چوڑے سے پھن کا
گر قلب کو تعلیم سے تسلیم سکھا تا
پھر علم کو تُو یار ِ جگر سوز ہی پاتا
o سُنیے بس ایک بات اور آخری
ارشدؔ نے گفتگو سے قلندر کی ہے سنی
اقبال: پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغ ِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
من کی دنیا من دنیا سوزو مستی جذب و شوق
تن کی دنیا تن کی دنیا سو دو سودا مکرو فن

تمت بالخیر
پروفیسر سید ارشدؔ جمیل
sarshadjamil@yahoo.com

Sunday 4 October 2009

لیک ڈسٹرکٹ ۔ کیزک جھیل -ونڈر میئر جھیل ۔ پروفیسر سید ارشد جمیل

انسان ابتدا ء ِ آفرینش سے ہی پانی کا محتاج رہا ہے اور گہرے ذخیرۂ آب سے خائف بھی رہا ہے۔ جس طرح آگ سے خائف اور آگ کا محتاج رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پانی کے ذخیروں کو اپنی حاجت کی خاطر محفوظ کرتا رہا ہے۔ بعض معاشروں میں پانی اور آگ کو مقدس مانا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی یہی ہے کہ خلّاق ِ ازل کی یہ دو نعمتیں اسے ڈرانے اور اسکی حیات کو جاری و ساری رکھنے میں ممد و معاون ہیں۔ جہالت اور گمراہی کے سبب انسان انکے خالق کو بھول کر انکی پرستش میں لگ گیا۔ قدرتی ذخائر کے علاوہ انسان تالابب جھیلیں اور ڈیم ہزاروں سال سے بناتا چلا آ رہا ہے۔ قرآن ِ کریم میں ملکہ صبا کے بنائے ہوئے ڈیم (بند ) کی مثال دی گئی ہے۔ جسے قدیم انسانی تعمیراتی کاوش کی اعلٰی مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔ قدرتی ذخیروں میں پہاڑوں پر موجود جھیلیں ہزاروں سال سے انسانی دلچسپی کا مرکز رہی ہیں۔ چند روز پہلے برطانیہ کے ذخیرہ آب کا مجموعہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اپنی حسین ترین جھیل سیف الملوک کا حسن اور دلکشی اپنی مثال آپ ہے۔حسین مناظر کا تقابل بہت مشکل کام ہے بقولِ شاعر
؏ ہر گل را رنگ و بوئے دیگر است۔
بعض ہر پھول اپنی خوشبو اور رنگ جدا گانہ رکھتا ہے گویا ہر خوشبو دار پھول ایک ممتاز اور منفرد و دلکش بو اور رنگ کا حامل ہے۔ اسی طرح قدرتی مناظر میں ہر منظر اپنے حسن کشش اور رنگینی میں آپ اپنی مثال ہے۔
خلاق ِ ازل کا اہل برطانیہ کو لیک ڈسٹرکٹ ایک حسین تحفہ ہے خالقِ بے پرواہ نے کسی کو صحرا اور اسکی نعمتوں سے آزما یا کسی کو برف کی کُلفتوں سے نوازا۔ ہم مڈلز برا سے دو کاروں میں لیک ڈسٹرکٹ کے لئے صبح روانہ ہوئے راستہ اتنا پُر کشش اور کہیں کہیں اتنا خوفناک ہو جاتا تھا کہ نیچے کھائی کو دیکھ کر سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا تھا۔ بعض جگہ وادیوں میں پہاڑوں پر اور انکے ڈھلوانوں پر درختوں کی صفیں بچھی ہوئی تھیں سبزہ پوش پہا ڑوں پر کھڑے سر و[۱] صنوبر[۲] کے نوکیلے سِرے ایک دوسرے سے اُچک کر پستی کو شرم سار کر رہے تھے۔ بعض کوہسارکی انتہائی بلندی پر میپل[۳] کے درختوں کی قطار طویل فصیل کا منظر پیش کر رہی تھی ۔ سہ پہر چار بجے غروبِ آفتاب سے پونے پانچ گھنٹے قبل ہم ہائوز اینڈ کے ایک ہاسٹل میں پہنچے سڑک کئی بار دامنِ کوہ کا چکر لگاتی دروں سے گزرتی ناگن کی طرح لہراتی بل کھاتی ہوئی نشیب و فراز میں اترتی چڑھتی منزل ِ مقصود تک لے آئی سارا راستہ سر سبز و شاداب پھولوں سے لدا پھندا تھا وادیوں اور پہاڑی ڈھلانو ں میں بھیڑوں کے چرنے کا منظر بے انتہا خوبصورت اور دلکش تھا۔ جی چاہتا تھا آدمی اس سبزہ زار میں کالی سفید اور چتکبری بھیڑوں کے چرواہے کے طور پر زندگی گزار دے اس خیا ل ِ خام بلکہ قرآنِ کریم کے الفاظ میں اضغا ث ِ احلام یعنی بے سروپا خواب پر قلم طنزیہ طور پر مسکرایا اور دماغ میں ایک خیال برق کی مانند کوندا کہ میاں یہ تو دیارِ غیر ہے اپنے پیچھے جو اپنے بھیڑیں چھوڑ کر آئے ہو اس رعیت کے راعی کے طور پر ہی بقایا زندگی( بشر طِ حیات ) گزار لو تو بہتر ہے۔ ہائوز اینڈ کا یہ ہاسٹل کیزک جھیل کے ایک کنارے پر ذرا سی بلندی پر واقع تھا چاروں جانب سے میپل اور سرو کے درختوں سے گھِرا ہوا تھا۔ راقم نے ٹیکسلا کے قریب خانپور جھیل اور ڈیم دیکھا ہے یہ اگرچہ بہت چھوٹی جھیل تھی مگر قدرتی تھی اور ایک پیالہ نماوادی کے وسط میں واقع تھی ۔ کیزک جھیل ایک وسیع وعریض رقبہ پر واقع تھی اسکے اطراف میں پہاڑ وں پر جو گرینری تھی وہ خانپور کے علاوہ کلری جھیل کینجھر یا منچھر کے اطراف میں نہیں پائی جاتی ، خانپور جھیل دیگر پاکستانی جھیلوں کی نسبت زیادہ سر سبز ہے۔ البتہ حَنّا لیک کی سرسبزی قابل رشک ہے۔سنا ہے کلّر کہار جھیل بھی کافی سر سبز ہے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ہائوز اینڈ ہاسٹل میں آٹھ نو خاندانوں کو پہنچنا تھا۔ ہم یعنی ایمان ، اسکی بہن ، اسکی چچی، اسکے چچا ، اسکے مما پپّا ا ور اسکے امی ابو پہلا خاندان تھا جو وہاں پہنچا تھوڑی دیر بعد دو خاندان اور پہنچ گئے ۔ ہم نے نماز اور عصر ادا کی اور جھیل کی سیر کو نکلے۔ ہم چونکہ اونچے اونچے درختوں اور پہاڑوں سے گھرے ہوئے تھے اسلئے جھیل کی طرف جانے والا یہ راستہ اچھا نہیں لگا۔ لیکن ہم جھیل کے خلیج نما کنارے کا چکّر لگا کر دوسرے کنارے پر پہنچے تو اندازہ ہوا کہ جھیل بڑی وسیع و عریض ہے۔ وہاں سے ہاسٹل درختوں میں چھپا ہوا نظر آیا۔ یہ کنارہ گدلے پانی کی وجہ سے دلکش نہیں لگا۔ البتّہ دامن ِ کوہ میں پکڈنڈی پر چلتے ہوئے آگے بڑھے تو وہاں صاف پانی تھا۔ بطخیں اپنے بچوں کے ساتھ پانی میں مٹر گشت کر رہیں تھیں ۔ یا د آیا میرے ماموں مولانا سید احسان علی مرحوم بھوپال کے ایک قصبے سیہور کے بچوں کے کھیل کا ایک گیت سناتے تھے ۔ جو بچے دائرے کی شکل تالاب کے کنارے گاتے تھے بول کچھ یوں تھے۔۔۔
اینا ڈینا ڈینا ڈق۔ اتلا قتلا فیلا فق۔
پہلی دوجی تیجی بط۔ چوتھا ننھا پیارا غط۔
بطخ کے پیچھے چھم چھم چھم ۔ قیں قیں قیں قیں جل جل دم۔
اینخ سینخ برچھی بم ۔ ٹولم ٹالی ٹوٹی دھم۔
اُ س کے چند بول اُ س وقت میری سمجھ سے باہر تھے ، آج یہ منظر دیکھ کر کچھ بول سمجھ میں آ ئے ۔ کچھ دیر کی سیر کے بعد رہائش گاہ پر پہنچے۔ وہاں کئی فیملیز قدم رنجاں فرما چکی تھیں۔ لوگ خواتین کی معاونت میں اپنے اپنے بچوں کو کھلانے پلانے میں مصروف ہو گئے۔ ڈوبتے سورج کا نظارہ دنیا و مافیہا سے عارضی لا تعلقی اور زبر دست محویت کا باعث ہوتا ہے۔ پانی میں کسی ذی روح کا منظر ہمیشہ سوہانِ روح کا سبب ہوا ہے۔ لیکن ناجا نے کیوں۔ فنون ِ لطیفہ کی حِس رکھنے والوں کے لئے غروب ِ آفتاب کا منظر ہمیشہ دلکش رہا ہے۔ مصوروں اور تصویر کشی کرنے والوں نے کبھی کیمرے کی آنکھ میں تو کبھی برش اور رنگوں کے ذریعے اسے کینوس پر اتاراہے۔ شام ڈھلتے سورج کی سنہری دھوپ بادلوں کے پھٹے پھٹے آ وارہ غولوں سے چھن چھن کر پتوں پر پڑ رہی تھی ۔ راقم کمرۂ ارتکاز (کنزر ویٹری) میں کھڑا شفّاف شیشے کے اُس پار نظارہ ٔ جمال سے محظوظ ہو رہا تھا ۔ درختوں کے پتّے ہلکی ہلکی ہوا سے نہایت خفیف سر سراہٹ پیدا کر رہے تھے یہ ہرے ہرے پتّے انسانی اور حیوانی زندگی اور اپنی اور انکی بقائے نسل کے لئے جو کارہائے عظیم انجام دیتے ہیں۔ اس پر غور کرتے ہوئے انسان خالقِ کائنات کی صنائی کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ شیخ سعدی نے اس پر بڑا فکر انگیز تبصرہ فرمایا ہے۔
؏ برگِ درختانِ سبز در نظرِ ہوشیار
ہر ورقِ دفتر یست معرفتے کرد گار
یعنی درختوں کے سبز پتے ہوشیار آدمی کی نظر میں پروردگار کی معرفت کے دفتر ہیں۔ آس پاس لگے درخت اور پودے موسم گرما کے باعث پھولوں سے لدے پھندے تھے نئے نئے پتّے نکلے تھے۔ موسم ِ گرما کی خوشگوار ہوا کی لطیف خوشبو دماغ میں بسی جا رہی تھی ادھر جوانوں کے مزید جوڑے اپنے بچوں کے ساتھ نمودار ہو رہے تھے بالکل ایسے ہی جیسے ایمان اور اسکا خاندان ابھی ابھی جھیل کے کنارے بطخ اور ان کے پیچھے انکے بچے ،پانی پر خراما خراما تیر تے ہوئے نظر آئے تھے۔ایک جھاڑی بلکہ چھوٹے سائز کا درخت ایلڈر بیری[۴] اپنے سرخ پھلوں کے گچھوں سے لدھا ہوا اس قدر خوشنما لگ رہا تھا کہ الفاظ اس کے حُسن کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔چیسٹ نٹ[۵] ، ہیزل نٹ[۶] اور کونکر کے اونچے اونچے سایہ دار درخت اطراف کے پہاڑوں پر آنکھوں کو طراوت بخشنے والی سرسبزی کا باعث تھے۔ دور کے پہاڑوں پر راقم کو جانے کا موقع نہیں ملا لہٰذا جو کچھ مشاہدہ ٔ قرب و جوار میں آیا وہ ہی قلم رقم طراز ہے۔ لورل[۷] ، روون [۸]، بیچ[۹] ، اوک [۱۰](شاہ بلوط) کے درخت اور ہولی [۱۱]کے جھاڑی نما درخت کوئی جگہ نہیں تھی جہاں قدم جمائے نہ کھڑے ہوں۔ یہاں آکسی ڈینٹل آئی وی[۱۲] کی بیل بے حد و حساب پھیلتی اور بڑھتی ہے۔ قصبات میں بعض مکانات کے کھڑکی دروازوں کو چھوڑ کر پوری کی پوری دیواروں پر چھائی ہوتی ہے۔ یہ بیل اپنی ہوائی چپکنی[۱۳] جڑوں کے ذریعے دیواروں اور درختوں کے تنوں پر لپٹتی اوپر چھڑھتی چلی جاتی ہے۔
رات کے کھانے اور نماز عشاء کے بعد ہم سب اپنی اپنی قیام گاہوں کی طرف چل دیئے ۔ صبح طلوع آفتاب سے قبل ، صبح صادق کے آغاز میں ایک نوجوان نے خشوع و خضوع سے بڑے روح پرور انداز میں قرأت کے ساتھ فجر کی نماز پڑھائی ۔ نماز سے فارغ ہو کر دوبارہ کچھ لوگ آرام کرنے چلے گئے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ناشتہ کی تیاری شروع ہوئی : فرخ ،ابراھیم ،حسن اور محمد خان صاحبان تیاری اور فراہمی کی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔ جبکہ منتظرین فقرہ بازی سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ بعض ریمارکس پر با ورچی خانے سے جواب آتا تھا کہ کھانا پکا نا تو ہمارا مستقل پیشہ ہے بھائی ، جس پر زوردار قہقہہ پڑتا ۔ فقرہ آتا حسن کو تو برتن دھونے میں کمال حاصل ہے جواب آتا شادی سے پہلے یہ ہی کرتے تھے اور کرتے کیا تھے پھر زوردار قہقہہ پڑتا۔ کبھی کوئی فقرہ خان صاحب کی طرف اچھالا جاتا تو خان صاحب اسکا جواب بھاری بھرکم جملے سے دیتے تھے اور پھر خود بھی شرکاءِ مجلس کے ساتھ قہقہوں میں شریک ہوتے۔ غرض انڈوں پراٹھوں اور چائے کے ساتھ ناشتہ دلچسپ مکالمات ہلکے پھلکے طنز و مزاح او ر فقرہ بازی کے بعد جھیل کیزک جانے کی تیاری کے لئے جوان پھر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ ہائوز اینڈ سے نیچے اتر کر دائیں جانب چکر لگاتے ہوئے ہماری آٹھ گاڑیاں کیزک ٹائون پہنچیں۔ ٹائون میں ہر پول کے ساتھ کائونسل نے پھولوں سے بھرے چھوٹے چھوٹے گملے ہینگنگ باسکٹ (لٹکتی چھولداریوں ) میں آویزاں کئے ہوئے تھے۔ پھولوں میں سرخ پیلے گلابی اور نیلے پھول پٹونیا[۱۴] ، جرینیم[۱۵] ، کرائی سینتھی مم[۱۶] آرکڈ[۱۷] وربینا [۱۸]اور بٹر کب [[۱۹]وغیرہ کا خوشنما امتزاج تھا ۔ برطانیہ میں بڑے سے بڑا شہر ہو یا چھوٹے سے چھوٹا ٹائون ہر جگہ یہ آرائش ِ گل موسم ِ بہار سے آغاز ِ سرما تک لازمی کی جاتی ہے۔ پارکوں میں سڑکوں کے کنارے ، گھروں کے کھڑکی دروازوں میں غرض ہر جگہ رنگ و نور بکھرا ہو تا ہے۔ اور انبساط ِ روح نشاطِ قلب کا با عث ہوتا ہے۔ اکبر الٰہ بادی نے کیا خوب کہا ہے۔
؏ بہار آئی کھلے گل زیب ِ صحنِ گلستاں ہو کر
عنادل نے مچائی دھوم سرگرم ِ فغا ں ہو کر
آج یہاں دھوپ نکلی ہوئی تھی اور یہاں کے لوگ(برطانوی) دیوانے ہو رہے تھے مردوں نے گھُٹنوں تک نیکر پہنا ہوا تھا عورتوں نے برائے نام نیکر رانوں تک پہنا ہوا تھا ۔ مرودوں نے قمیص اتاری ہوئی تھی ،عورتوں سلیو لیس[۲۰] پشت پر دو دھجیوں سے بندھی ہوئی فراک نما چیز پہنی ہوئی تھی گویا پشت تمام عُریا ں اور سینہ نصف سے کچھ کم عُریاں تھا ۔ ٹائون میں گاڑیاں پارک کر کے ہم لوگ ایک پارک میں پہنچے جو جھیل کے کنارے بڑے سلیقے سے سجایا ہوا پارک تھا جس میں تفریح کا ہر سامان موجود تھا ۔ اس پارک کا نام ہوپ[۲۱] پارک تھا ۔ یہاں بھی لان پھولوں کی کیاریاں ، تالاب ، بینچین، پیدل چلنے کی رَوِشیں انواع واقسام کے درخت کہ جنکا ذکر بار بار راقم کر چکا ہے ۔ بیل بوٹے اور شش دری اپنے بنانے والوں کی حسن پرستی کی غمازی کر رہے تھے گویا یہ دنیا میں ہی باغِ امید بہشت کا ایک ٹکڑا تھا۔ اصغر کا ایک مصرع یاد آ رہا ہے اور غالباً یہ پہلا مصرع ہی حسبِ حال ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔
؏ اصغر نشاطِ روح کا اک کھل گیا چمن
ہوپ پارک کے سائیڈ میں لیک روڈ کے ذریعے ہم ٹائون سے جھیل کی جانب چلتے ہوئے لانچ پر چھڑھنے کے مقام تک پہنچے ، یعنی فرئیزر کریگ ۔ فرئیزر کریگ سے ڈروینٹ واٹر کا منظر بقول جان رسکن یورپ کے تین یا چار حسین مناظر میں سے ایک ہے۔ کیزک جھیل مین لانچ کا سفر بڑا فرحت افزا نشاط انگیز اور طراوت ِ دل و دماغ کا باعث ہے۔ یہاں خوشنما کُروز(لانچ یا چھوٹا اسٹیمر) جھیل کی سیر کراتا ہے۔ اور چھے لانچنگ جیٹی کا چکر لگا کر واپس فرئیزر کریگ کے دامن میں چھوٹی سی بندر گاہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ ہماری تمام پارٹیوں نے اپنے اپنے ٹکٹ خریدے اور لانچ میں سب ساتھ بیٹھنے کے لئے کُروز میں چڑھے دو ساتھی اپنی کاروں پہ پارکنگ ٹکٹ لگانے گئے دریں اثنا ء کُروز کے بوائے سیلر (کنڈکٹر) نے لنگر کھول دیا دونوں سامنے ہی تھے مگر کُروز میں نہ چڑھ سکے وہ کنارہ چھوڑ کر روانہ ہو چکا تھا ۔ بوائے سیلر نے ہمیں چار نمبر جیٹی پر اترنے اور انکو دوسرے کُروز میں آنے کو کہا۔ اس طرح دو جوڑوں کے ایک ایک ساتھی عارضی طور پر بچھڑ گئے ایک جوڑے پر تو یہ بڑا یہ غضب ہوا اسلئے کہ انکی تو نئی نئی شادی ہوئی تھی ۔ کُروز سے ہم سب لوگ جیٹی نمبر چار پر اُتر گئے وہاں کچھ لوگ پہاڑ پر سفر کرنے چلے گئے۔ کچھ جھیل کے پانی میں پیر ڈبونے کے مشغلے میں مصروف ہو گئے۔ راقم نے اہلیہ کے ساتھ لکڑی کی رائونڈ ٹیبل کے گِرد بیٹھ کر لڈو کی بازی لگائی ایمان مما پپا کے ساتھ جھیل کے پانی سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ جھیل کے چاروں طرف ہرے بھرے پہاڑ اپنے دامن پھیلائے خالق ِ عظیم کے حُسنِ تخلیق کا منہ بولتا ثبوت پیش کر رہے تھے۔ اس نہایت حسین بے حد خوبصور ت اور انتہائی پُر کشش منظر کو الفاظ میں قلم بند کرنا ایسا ہی نا ممکن ہے۔ جیسا ان پہاڑوں کو الیکٹریکل بیلنس آف جو ئیلرز [۲۲]( برقی ترازو برائے صرّاف) میں تولنا نا ممکن ہے۔بچھڑے ہوئے ساتھیوں کے پہنچنے کے بعد ہم ایک واپسی کی کُروز میں بیٹھے ۔ اس سفر کے دوران جھیل میں کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے نظر آئے۔ سینٹ ہر برٹ جزیرہ، اولڈ برائون جزیرہ ، ریمپ شالم کا جزیرہ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک نہایت چھوٹے جزیرہ پر تمام کا تما م خود ر و لہسن لگا ہوا ہے۔ سب جزیرے قومی اوقاف[۲۳] (نیشنل ٹرسٹ ) کی ملکیت ہیں۔ جنگلی لہسن کا ذکر راقم نے ڈریکولا ناول میں پڑھا تھا ۔ یہ ورائٹی فقط یورپ میں ہوتی ہو گی کیونکہ انڈو پاکستان کے فلورا میں ایلیم سٹائیوم [۲۴]کی کوئی خود رو ، ورائٹی نظر سے نہیں گزری ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کیشپ [۲۵]نے بھی گراسز آف پنجاب [۲۶]میں ایسا کوئی ذکر نہیں کیا ۔ پنجاب یونیورسٹی کے ہر بیریم[۲۷] کو دیکھنے کا اتفاق ہوا کیشپ کا محفوظ [۲۸]ذخیرہ بھی دیکھا لیکن اُس وقت اس نقطۂ نظر سے فیملی للی ایسی[۲۹] پیشِ نظر نہیں تھی۔ ہم سب واپسی کے سفر سے بہت محظوظ ہوئے اس مرتبہ ہم لوگ کُروز کے اگلے کھلے حصّے میں بیٹھے تھے جہاں پانی اُچھل اُچھل کر ہم سے اَٹھ کھیلیاں کر رہا تھا۔
غالباً آتے ہوئے تو کوئی نہ کوئی یہ شعر ضرور گنگنا رہا ہو گا انشاء اللہ خاں انشاء سے معذرت کے بعد پہلے مصرعے میں تصرّف کے ساتھ ملاحظہ ہو۔
؏ نہ چھیڑ اے جھیل کے پانی ہمیں تو راہ لگ اپنی
تجھے اٹھ کھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔
کیزک کی سیر کےبعد ہاسٹل پہنچے رات کا کھانہ کھایا گیا وہی ہنسی مزاق طنز و استہزا (اس تمام فقرہ بازی کی خوبی یہ تھی کہ یہ ہتک آمیز اذیت ناک اور عزتِ نفس کو مجروح کرنے والے مذاق پر ہر گز مشتمل نہ تھی) نماز سے فارغ ہوکر ایک ہلکہ پھلکا مشاعرہ ہوا جس میں راقم نے ایک مزاحیہ فی البدیہہ ایک مزاحیہ نظم سنائی(مشاعرہ کی وڈیو بلاگ میں شامل ہے)۔ تیسرے دن صبح ناشتہ کے بعد سب لوگ واپس اپنی اپنی منزل کی طرف گامزن ہونے کے لئے مستعد ہوئے۔ اکثر کا پروگرام ونڈر میئر جھیل کی سیر کرتے ہوئے واپس جانے کا تھا ۔ راستے میں تین جھیلیں آئیں ہر مرتبہ راقم کو شبہ ہوتا تھا کہ شاید یہ ونڈر میئر جھیل ہے لیکن ٹام ٹام [۳۰] (نیوی گیٹر) آگے ہی لئے چلا جا رہا تھا ۔ آخر کار اس نے اعلان کیا کہ آپ اپنی منزل ِ مقصود پر پہنچ گئے ہیں ۔ یہ جھیل بھی کافی خوبصورت ہے۔ لیکن کیزک سے کم۔ اس جھیل پر ہم نے نصف دن گزارا راقم ٹرین میں بیٹھا ایمان بطخوں کو کھانا کھلاتی رہی مناظر تقریبا ً کیزک جیسے تھے ۔ یہاں نسبتا ً بڑے اسٹیمر بھی چل رہے تھے۔


1Pine Tree2. Juniper 3. Maple or Acer 4. Elderberry 5. Chestnut 6. Hazelnut 7. Laurel 8. Rowan 9. Beech 10. Oak 11. Holly 12. Ivy 13. Clinging aerial roots 14. Petunia 15. Geranium 16. Chrysanthemum 17. Orchid 18. Verbena 19. Buttercup 20. Sleeveless 21. Hope 22. Electrical balance 23. National trust 24. Allium-sativum 25. S. R. Kayshup. Prof 26. Grasses of Punjab 27. Herbarium 28. Collection of Preserved Plants 29. Liliaceae 30. Tom Tom (Navigator)






Monday 7 September 2009

ڈاکٹر سید عبدالمجیب کی اچانک وفاتِ حسرت آیات پر لکھے گئے اشعار

زندگی بھی حادثہ ہے موت بھی اک  حادثہ

مرنے والے کے مقدر میں یہی تھا سانحہ

دل یہ کہتا ہے ہمیں کیوں چھوڑ کر وہ چلدیا

اقربا  پر کوہ رنج و غم اچانک گر پڑا

ایک سیل اشک آنکھوں سے مسلسل ہے رواں

کل وہ سرگرم ِعمل تھا اقربا کے درمیاں

رورہا ہے دل اسے لکھتے ہوئے مر حوم آج

جسکی شخصیت میں تھا حلم و وفا کا امتزاج

جاں کا جانِ آفریں سے وصل ہے بالکل عجیب

جاں بحق دست ِ مسیحا میں ہوئے عبدالمجیب

اے خدارحمت کند بر آل ِ شاہ عبدا لوحید

جاملی اپنے  بزرگوں سے پھر اک روح سعید

مرزا غالب کا ایک شعر راقم کے حسب حال بہت ہی مناسب ہے ملاحظہ ہو۔

ہو چُکیں غالب بلائیں سب تمام

ایک مرگ ناگہانی اور ہے۔

سوگوار پروفیسر سید ارشد جمیل، مڈلز برا ۔ برطانیہ

Saturday 1 August 2009

عظت ِ انصاف کی اعلٰی مثال نیز دنیا کا خاتمہ-پروفیسر سید ارشد جمیل

لیک ڈسٹرکٹ کے پُر لطف سفر کا احوال پھر ملتوی کرنا پڑا اسلئے کہ پاکستان میں عدلیہ عظمٰی نے ایک اہم فیصلہ دیا ہے۔ ماضی میں عاصمہ جہانگیر کیس میں بھی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا اور اسکے نتا ئج کا اطلاق ماضی میں ہوجانے والے احکامات و تعمیلات پر نہیں ہو سکا۔ کچھ اسی نوعیت کا آج کا فیصلہ ہے۔ البتہ ۳ نومبر ۲۰۰۷؁ ء کو پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والے اور اصلی ججوں کو فارغ کر کے ہائی کورٹ اور سُپریم کورٹ میں اپنی مسندیں جمانے والے ججو ں کو اس فیصلہ نے فارغ کر دیا۔ اس خوف سے کہ کہیں پھر مارشل لاء نہ لگ جائے، فیصلہ میں پارلیمینٹ اور صدر کے عہدہ کو تحفظ دیا گیا ہے۔ اصولاً و عقلاً تو یہ تحفظ عجیب لگتا ہے۔ جب ڈوگر کا تقرر غیر آئینی ہے تو صدر کا حلف کیسے آئیید ہو سکتا ہے۔انہیں صرف یہ کرنا چاہیے کہ اس فیصلہ کے فوراً بعد افتخار چوہدری کے سامنے دوبارہ حلفِ صدارت اٹھا لیں۔ البتہ ان کی مدّ ت ِ صدارت پہلے حلف سے شمار ہو گی۔عدلیہ کا یہ اقدام تاریخ ساز اقدام ہے جس کی بہر حال جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ چار مصرعے اس صورتحال کے عکاس ملاحظہ ہوں۔
قطعہ 
ہو گیا ہے خاتمہ فرعونیت کے دور کا 
فیصلہ انصاف کی عظمت کی ہے اعلٰی مثال
ہو گئے فارغ وہ منصف جو تھے آمر کے حلیف 
آمرانہ ظلم کی شب کا ہوا آخر زوال
اردو کے ایک ناول میں ایک انگریزی نظم نظر سے گزری ، راقم نے اسے آزاد نظم کے قالب میں ڈھال دیا یہ نظم مفہوم کی ترجمانی پر مشتمل ہے۔ ملاحظہ ہو
دنیا کا خاتمہ
کہتے لوگ آخری جنگ جوہری رزم ہے
دنیا فشار ِ جوہر کی آتش سے ختم ہے
یا برف کی طرح سے بے جاں ہو یہ زمیں
حامی ہوں میں تو فلسفۂ ختمِ آتشیں
لیکن اگر ہو ختم یہ دو مرتبہ حیات 
پھر تو برف کی ٹھنڈ سے نفرت سے ہو نجات ۔ 
الخ

Wednesday 29 July 2009

عبرت کدہ، کلیولینڈ شو مڈلز برا-پروفیسر ارشد جمیل

ایک عجیب و غریب نقشہ ایک فنکار کے نگار خانے میں سجا ہوا ہے وہاں کبھی کبھی حیرت انگیز واقعات رونما ہو جاتے ہیں غوری بڑا ماہر مجسمہ ساز ہے جہاں وہ اپنے فن کو تحیلاتی طور پر مُتشکِّل کرتا ہے یعنی اپنے تصورات میں بسی ہوئی حسین دنیا کو چوبی(لکڑی کے بُت)( 1 )مجسموں کی شکل میں اتارتا ہے۔ وہیں وہ بڑے بڑے جغادری لیڈروں ، آمروں اور حکمرانوں کے مجسمے بھی بناتا ہے اور ان مجسموں کو فروخت نہیں کرتا بلکہ انہیں اپنے فنکدہ کے ایک نیم تاریک کمرے میں (جہاں تازہ ہوا کا گذرقطعی نہیں)نصب کرتا ہے کہتا ہے "یہ عبرت کدہ ہے جس طرح اہرامِ مصر کی ممیاں فروخت کرنا خلافِ قانون ہے یا ہمارے ملک کا کوئی نادر تاریخی مجسمہ آثارِقدیمہ کے قوانین کے مطابق ریاست یا کسی میوزیم کی ملکیت ہوتا ہے اور اسکی خریدو فروخت قانوناً جرم ہے ایسے ہی میں اپنے عبرت کدے کے مجسموں کو فروخت کرنا اپنے ضمیر کے خلاف سمجھتا ہوں"۔سنا ہے دن بھر ساکت و صامت جامد اور بے حِس و حرکت مجسمے رات کو اپنی بھٹکی ہوئی روح کی چند ساعتوں کی آسودگی کے باعث کہ جو ان میں آ گھستی ہے یہ متحرک و گویا ہو جاتے ہیں۔ غوری صاحب نے خود تو نہیں البتہ انکے ایک دوست نے جو ہمارے بھی شناسا ہیں بتایا کہ ایک رات غوری صاحب دیر تک نقاشی و چوب تراشی کا کام کرتے رہے تھک کر عبرت کدہ کے دروازے کے قریب صوفہ پر نیم دراز ہو گئے۔ یہ ایک زندہ مرد آہن کا مجسمہ تراش رہے تھے جو ابھی نا مکمل تھا۔ اچانک اندر سے کھسر پھسر کی آوازیں سنائی دیں۔ ایک با رُعب قدآور مجسمے نے اپنے فوراً بعد گدی سنبھالنے والے اور مکان کو توڑ کر دو ٹکڑے کر دینے کے بعد عبرت کدے کی زینت بننے والے سے پوچھا یہ کون ہے کہ ابھی ہماری بزمِ مردانِ آہن میں آیا بھی نہیں ہے کہ سب اسے دروازے کے باہر ہی مبارکباد دے رہے ہیں۔ مسئول نے اٹینشن ہو کر کہا سر ! یہ ہماری سر زمین کا آخری مردِ آہن معلوم ہوتا ہے۔ سائل موصوف نے پوچھا اس نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے ۔ مسئول نے پھر اٹینشن ہو کر کہا سر ! اِس نے سر زمینِ مُظلوم پر دو مرتبہ کلہاڑا چلایا ۔ آئین کو اور ترمیمات کے پشتارے میں تمام شریفانہ اطوار کو بند کردیا۔ پارڈن سر آپ سے ڈبل اور میرے جیسا کارنامہ انجام دیا ہے دیر یا سویر یہ ہماری بزمِ مردان آہن میں آنے والا ہے اس نے رنگ برنگی بھیڑوں اور بکریوں کو بھی جو دُم دبا کر ہمارے پیچھےچلتی تھیں قتل کیا اور حبس زدہ باڑے میں قید کر دیا اور حسبِ ضرب المثل باقی ماندہ بھیڑوں کو اپنے پیچھے چلنے کا حکم صادر فرما دیا تھا ابھی بات چیت جاری تھی کہ فنکار کی آنکھ لمحہ بھر کو جھپک کر کُھل گئی ۔ دوست کی اس پُر فریب منظر کشی پر اور حالات حاضرہ کے تناظر میں (یعنی عدالتوں کے اندر کے حالات پر ) چار مصرعے حاضر ہیں۔
؏ امید ہے مقتول کو قاتل سے رحم کی
ہوگا بڑا یہ ظلم وہ کر دے اگر معاف
کل اس نے ان سے مند ِ انصاف کی تھی سلب
پرواں چڑھایا ملک میں تفریق و اختلاف
کہتےہیں بلی بھی اپنے گھر پر شیر ہوتی ہے۔ اگر محاورہ میں ذرا سی تبدیلی کی جائے اور اسکا اطلاق بھیڑ بکریوں پر کیا جائے تو جن بھیڑ بکریوں کا خون یہ مرد آہن چوستا رہا ان مین سے چند اعلٰی نسل کے اصیل بکروں نے اسکی قید سے آزاد ہو کر اپنے گھر (باڑے) پہنچ کر مل جل کر آخری مردِ آہن کو اپنے سینگوں پر اٹھا کر پھینکنے کا عزم کیا ہے۔ گویا اب یہ بھیڑ، بکری اور بکرے اپنے گھر پر شیر ہو گئے ہیں اور خون کا بدلہ خون کی ضرب المثل سچی ہونے والی ہے۔ البتہ خطرہ اگر ہے تو جمہوریت کے نام نہاد نام لیوائوں سے، عدل وا نصاف اور غریب ملکوں کے جھوٹے سر پرستوں اور عالمی بستی کے ظالم ناخدائوں سے ہے کہ جن کی سر پرستی میں یہ ظالم اور غاصب مردان آہن غریبوں کا خوط چوستے رہے ہیں۔
قلم آرٹسٹ غوری کے عبرت کدے میں الجھ گیا حالانکہ لیک ڈسٹرکٹ (کائونٹی) اور کلیو لینڈ (2)شو کا تذکرہ کرنا تھا ۔ تو پہلے شو کا ذکر کرتے ہیں۔ اس مرتبہ اس نمائش کو ایمان ، ہانیہ ، میں ، ایمان کی امی(ایمان اپنی دادی کو امی اور مجھے ابو کہتی ہے)،مما اور چچی دیکھنے گئے۔ یہ نمائش مڈلز برا کے علاقے مارٹن میں ایک پارک، اسٹیوارٹ پارک میں لگی تھی مارٹن کبھی مڈلز برا کے نواح میں ایک گائوں ہوتا تھا جسکے ایک حصے میں کیپٹن جیمز کُک ایک مشہور جہاز راں اور برطانوی نیوی کا ایک کامیاب افسر رہتا تھا۔ جس نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے کئی سفر کئے اور بحری راستوں کے نقشے تیار کئے ۔ ہوائی جزائر کے بھی سفر کئے اسکی جائے پیدائش پارک کے ایک کونے میں تھی جو اب گردشِ زمانہ اور موسموں کی دست برد سے معدوم ہوگئی تھی البتہ وہاں ایک میوزیم بنا دیا گیا ہے۔ ۱۲۰ ایکڑ پر یہ پارک اسٹیوارٹ نے مڈلز برا کائونسل کو ۱۹۲۸؁ ء میں عطیہ کیا تھا اور اسے عام پبلک کی تفریح کے لئے وقف کر دیا تھا ہمارا حال یہ ہے کہ جو پارک بنے بنائے ہیں انہیں مٹا کر زمین ہضم کرلی جاتی ہے۔ شو میں گھو ڑوں کی تازہ دم تندرست مضبوط اور خوشنما بدن اٹھکھلیاں کرتی ہوئی ایک ٹیم ایک بڑے احاطے میں چکر لگا رہی تھی ۔ برابر میں اونٹ اور زرافے کے ربڑ یا غالباً پلاسٹک کے بنے ہوئے درازیٔ قد کا مظاہرہ ہوا کے چلنے سے گردن ہلا ہلا کر کرہے تھے نقل مطابق اصل تھی ۔ شو میں اسکول کے طلبا وطالبات نے جمناسٹک کا مظاہرہ کیا راقم کی معلومات اس میدان میں صفر ہیں بس یہ سمجھ میں آیا کہ یہ قلابازی نظم و ضبط اور تربیت کے ساتھ اچھل کود اور جسم کومختلف زاویوں سے موڑنے کافن ہے جو یہ ٹیم نہایت سبک رفتاری چابک دستی اور پھرتیلے پن سے سر انجام دے رہی تھی چھوٹے لڑکے لڑکیوں کے تو جسم میں معلوم ہوتا تھا کہ ہڈی ہی نہیں ہے۔ البتہ یورپ کے مزاج میں جو رقص و سرود اور طائوس و رباب رچا بسا ہے اسکی جھلک ان ورزشی کھیل کود میں بھی موجود تھی۔ حالانکہ یہ اسکے بغیر بھی اپنی کشش اور افادیت برقرار رکھ سکتے ہیں۔ غالباً اہل ِ مغرب اپنی تقدیر کے آخری مراحل طے کررہے ہیں۔ بقول اقبال 
؏ میں تجھکو بتاتا ہوں میں تقدیر ِ امم کیا ہے۔
شمشیر و سناں اول طائوس و رباب آخر
زراعت اور باغبانی کا ایک مختصر کیمپ تھا علاوہ ازیں ایک ایجوکیشن کا کیمپ بھی مختصر سا تھا ۔یاد آیا کہ ٹیز سائیڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ڈاکٹر مبشر صاحب ایک ملاقات میں فرمارہے تھے کہ برطانیہ میں ۳۵ میڈیکل کالج اور ۱۳ ڈینٹسڑی کی یونیورسٹیا ں ہیں۔ موصوف بتا رہے تھے کہ مڈلز برا کے کپڑے کی صنعت کے اور بعض دیگر کارخانے بند پڑے ہیں، وجہ مزدوری مہنگی ہو گئی لاگت زیادہ آنے لگی مال کے دام بھی بڑھ گئے وہی چیز چائنا سے سستی مل جاتی ہے لہٰذا کارخانے بند ہوگئے۔ایک نہایت چھوٹے سے کیمپ میں سانپوں کی چند اقسام تھیں ایک لڑکی اپنے ننگے بازوئوں پر ایک موٹے سانپ کو لپٹائے ہوئے تھی بچوں اور بڑوں کو اسے چھونے کی ترغیب دلارہی تھی ۔ آستین اس لئے غائب تھیں کہ مار آستین کہیں آستین میں نہ آجائے غالباً انگریزی میں اسنیک آف دی سلیوز (3) کا مہاورہ مستعمل نہیں ہو گاورنہ شیکسپیر کبھی بھی سیزر کی زبان سے یہ نہ کہلواتا "یو ٹو بروٹس تو ٹو"(4)۔ زراعت وباغبانی کا ایک وسیع و عریض کیمپ بھی لگا ہوا تھا۔ جس میں بونسائی(5) اور کیکٹس (6)(زقوم۔ تھوہر) کی کچھ نایاب اقسام دیکھنے کو ملیں۔ دیہی (7)ورثہ کے طور پر دیہی مرغیاں خرگوش بطخ سارس (8) اور بگلے بھی موجود تھے۔ زراعت وباغبانی کے کیمپ میں پھولوں کی اقسام دیکھ کر راقم کو اپنے محبوب شہر شہرِ بے نظیر آباد (نواب شاہ) میں خوجہ گارڈن کی پھولوں کی نمائش اور سائنس فیئر یاد آگئے یہ پروفیشنل اور نان پروفیشنل فلاور لگانے والوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا اور راقم اکثر منصف (جج) ہوا کرتا تھا لیکن یہاں دیارِ غیر اپنا یہ حال ہے ۔ 
؏ پھرتے ہیں میر ؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
رنگ برنگے پھولوں نے حُسن و رعنائی کا وہ دلربا منظر پیدا کیا تھا کہ نظر ہٹانے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ مڈلز برا کی نرسریوںاور پارکوں میں جتنی اقسام کے آکڈ (9) سوسن (للیز ) (10) ،فوکشیا (11) کے شفتا بی گلابی آسمانی جامنی پیلے اور اودے رنگوں کے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے گہرا سرخ گلاب سیاہی مائل تھا جسے کالا گلاب کہا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ زرد سرخ گلابی سفید گلاب اور بے شمار اقسام کے پھول اپنی چمک دمک آپ و تاب اور کشش لاجواب کے ذریعہ نظروں کی راہ سے دل میں اُترتے چلے جاتے تھے۔ انہی پھولوں کی پتیوں کی رعنائی و تابناکی کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔ 
؏ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر 
مرد ِ ناداں پر کلام ِ نرم و نازک بے اثر
لِتھاپس(12) (پتھروں جیسے پودے) کی جتنی اقسام یہاں دیکھیں اسی موسم ِ بہار میں کراچی کے ساحل سمندر پر دیکھیں اور مقابلہ برابر ہی رہا۔ بونسائی کا مجموعہ دو سال قبل فریئر ہال کے لان میں جو دیکھا وہ اب تک کے مظاہروں سب سے لاجواب تھا پائینس ، فائیکس ، فر ، ایلم ، چنار(یہ پہلی بار دیکھا ہے) تھوجا اور جونیپر ڈھائی انچ سے لے کر ڈھائی فٹ کے سائز میں موجود تھے اور بہت ہی عمدہ تھے ۔ اسی طرح کیکٹائی (13) کے بونسائی بھی بہترین تھے ۔ 
بچوں کی دلچسپی کے لئے برقی جھولے ، برقی گھوڑے ، بلند و بالا نیم دائروں میں جھکائو دیتی ہوئی ٹرین اک خوف کا سماع پیدا کرتی ہوئی دوڑتی دیکھی۔بچوں کے شور و پکا ر پر مبنی یہ تماشا بھی ایک عجیب نظارہ تھا جو والدین اور بچوں یا تنہا بچہ اور تنہا والدیا والدہ اس پُر کشش مظاہرہ میں شریک ہو کر یا دیکھ کر ہی لطف اندوز ہو رہے تھے۔صفائی کا نہایت عمدہ اور معقول انتظام تھا اور سیکیورٹی بھی بہترین تھی۔
(1) Wooden statue (2) Cleveland (3) snake of the sleeves (4) you Brootus too (5) Bonsi (6) cactus (7) Rural culture (8) Cranes or king stork (9) orchid (10) lilies (11) Fucshia (12) lithops (13) cacti 

Friday 17 July 2009

منظوم تبصرہ

آج آپ کی تفنن طبع کے لئے تین خبروں پر منظوم تبصرہ ہی کافی ہے۔
۱۔ خبر :- القاعدہ پاکستان میں ہے تو امریکی فوجیں افغانستان میں کیا کر رہی ہیں۔ ہیلری کلنٹن
قطعہ
القاعدہ ہمارے یہاں تو کہیں نہیں
الزام بے ثبوت لگاتی ہیں کیوں جناب
اصلا ً ہمارے جوہری اثاثوں پہ ہے نظر
سرحد عبور کرنے کا ہے یوں تم کو اضطراب
۲۔ خبر :- کراچی میں خون کی ہولی جاری ہے۔
خون کی ہولی
خون کی ہولی ہے جاری شہر ِ قائد میں ہنوز
دندناتے پھر رہے ہیں لے کے قاتل اسلحہ
کاش کوئی روک دے ان ظالموں کے ہاتھ کو
شہر سارا تو نہیں ہے قاتلوں کا ہمنوا
۳۔ خبر:- نوابشاہ میں ایک غریب اختیار حسین اپنی دو بچیوں کو فروخت کرنے پریس کلب لے آیا۔(نوٹ موجودہ گورنمٹ نے ضلع نواب شاہ کا نام تبدیل کر کے بے نظیر شہید رکھ دیا ہے)
لاچار
لو شہر ِ بے نظیر کا لاچار اختیار
دو بچیوں کو لایا ہے بازارِ مصر میں
یہ مفلسی کا مارا غریب اور کیا کرے
فاقوں سے مر رہا ہے وڈیروں کے شہر میں
کاوش ِ فکر پروفیسر سید ارشد جمیل

سکون کا سراب پروفیسر سید ارشد جمیل

میں میرا بیٹا فرخ انکے دوست ڈاکٹر زبیر کل شام مغرب کی نماز پڑھنے جا رہے تھے راستہ میں؛ نہایت شستہ و شائستہ ،اعلٰی تعلیم یافتہ حافظ قرآن شعبہ طب سے وابستہ ڈاکٹر زبیر کہنے لگے ہم جب کراچی میں تھے تو کچھ احباب اہل ِمغرب کا نقشہ کچھ ایسے کھینچتے تھے کہ وہاں لوگ درد و غم کے مارے اپنے اعمال بد کے ہاتھوں شکستہ و درمان بربادی کی راہ پر بگٹٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں۔لیکن میں نے یہا ں آکر دیکھا کہ بڑے سکون کے ساتھ صاف ستھرے ماحول میں پر امن ہر فرد اپنی دنیا میں مگن خوشحال زندگی گزار رہا ہے۔ جو نقشہ ہمارے احباب ِ فکر ہمیں دکھاتے تھے یہاں ہم نے قطعی مختلف پایا ۔ راقم نے عرض کیا کہ بظاہر پر سکون ہیں لیکن طلاقوں کی کثرت ،بچوں کی پرورش کی ذمہ داری پر مناقشہ اور شادی کی ذمہ داری کا جوا اتار پھینکنا وہ مسائل ہیں جو اس معاشرت میں بہت عام ہیں اور ذہنی پریشانی دکھ اور درد کے لئے کافی ہے۔ ڈاکٹر موصوف نے فرمایا کہ وہ (یہاں کے لوگ) اس سے بھی تفریح لیتے ہیں(انجوائے کرتے ہیں)۔ میں نے محسوس کیا کہ یہاں پڑھنے اور یہاں رہنے کے سبب، نیز میڈیا کے اثرات کے باعث اہل برطانیہ کی ظاہری زندگی سے اہل مشرق بہت بے حد متأثر ہیں اور اس تا ٔثر کو ختم کرنےیا کم کرنے لئے راقم کی چند منٹ کی نشست اور گفتگو کا رگر نہیں ہو سکتی، لہٰذا اُس وقت خاموشی اختیا ر کر لی۔
اگر اسلام سے قطع نظر صرف مشرق کے نظریہ حیا ، پاک دامنی اور عفت و عصمت کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بدھ مت ہو کہ ہندو مذہب چین کے مذہب ہوں یا ذردشتی مذہب (پارسی) سب میں ہی ننگا پن، بے حیائی، قانونی یا مذہبی رسم و رواج کے مطابق ازدواجی تعلق کے بغیر میل ملاپ کو نہ صرف نا پسند کیا جاتا بلکہ بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ خود برطانیہ کا یہ حال ہے کہ آج سے تقریباً ایک صدی قبل خواتین ٹخنوں تک لمبی فراک یا آدھے سے زائد پنڈلیوں کو ڈھانپنے والا اسکرٹ (جیسا ہمارے یہا ں بھیل اور تھر کے باشندے گھاگھرہ پہنتے ہیں )پہنتی تھیں۔ یہ ۳۰ یا ۴۰ سال پرانی بات ہے کہ جب منی اسکرٹ کا فیشن چلا تو دانش وروں ، سن رسیدہ سیاستدانوں اور پروفیسروں کی اکثریت نے اسے ناپسند کیا اور اعتراض اُٹھایا راقم نے خود ریڈر ڈائجسٹ میں منی اسکرٹ کے خلاف اور حق میں بحث پڑھی اور آخر کار بڑوں کو چھوٹوں کے آگے ہتھیا ر ڈالتے بھی دیکھا ۔ اور آخر کار صورتحال یہا ں تک پہنچی کہ اب عورتوں کے جسم پر برائے نام لباس قسم کی کوئی چیزباقی رہ گئی ہے اور مرد صرف جانگیے تک آ گئے ہیں۔ یہ سب کچھ انیسویں صدی کے آغاز میں مغربی مفکرین اور دانشوروں کی شخصی آزادی کی اس تحریک کا نتیجہ ہے جس کی رو سے ہر فرد کو اپنی خواہشات لباس تراش خراش وضع قطع اور ازدواجی معاملات میں مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ اس دور میں انسانی اخلاقیات کے بنیادی تصورات کو بھی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا گیا ۔ لہٰذا اس قسم کے سوالات نئی انقلابی سوسائٹی میں اٹھنے لگے کہ نکاح کے بغیر کوئی آدمی کسی سے محبت کر لے تو کیا بگڑ جاتا ہے اور نکاح کے بعد کیا دل آدمی کے سینے سے نکل جاتا ہے کہ اس سے محبت کرنے کا حق چھین لیا جائے ۔ افسانوی اسکول ِ فکر (1) کی ایک فرانسیسی مصنفہ ژورژساں (2)اس گروہ کی لیڈر تھی اس نے تمام اخلاقی اصولوں کو توڑااور ایک شوہر کی بیوی ہوتے ہوئے نکاح کے بندھن کے باوجود بیشتر مردوں سے آزادانہ تعلقات قائم کئے کم از کم چھ آدمی تو ایسے تھے جن سے اعلانیہ اور باقاعدہ آشنائی اور تعلقات تھے ۔ اُ س کے انہی دوستوں میں سے ایک اسکی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے۔ '' ژورژ ساں پہلے ایک پروانے کو پکڑتی ہے اور اپنے پھولوں کے پنجرے میں قید کرتی ہےیہ اسکی محبت کا دور ہوتا ہے پھر وہ اپنے پِن اسے چبھونا شروع کرتی ہےاور اس کے پھڑپھڑانے سے لطف اندوز ہوتی ہےیہ اس کی سرد مہری کا دور ہوتا ہے اور یہ دیر یا سویر یہ دور بھی ضرور آتا ہےکہ پھر وہ اس کے پَر نوچ کر اور اسکا تجربہ کر کے اسے ان پروانوں کے ذخیرہ میں شامل کر لیتی ہے جن سے وہ اپنے ناولوں کے لئے ہیرو کا کام لیا کرتی ہے۔''
اسکے نزدیک محبت اور وفاداری لازم و ملزوم نہیں۔ طرفین کو ایک دوسرے کے ساتھ آزادی اور رواداری سے کام لینا چاہیے۔ ایک ناول میں ایک شوہر اپنی بیوی کو دوسروں کی آغوش میں دیکھ کر یہ خیال ظاہر کرتا ہے جو حقیقتاً ژورژ کے خیا لات ہیں۔ 
'' میں نے اپنی رائے نہیں بدلی میں نے سوسائٹی سے صلح نہیں کی نکاح تمام اجتماعی طریقوں میں وہ انتہائی وحشیانہ طریقہ ہے جسکا تصور کیا جا سکتا ہے آخر کار یہ طریقہ موقوف ہوجائیگا۔'' اور یورپ میں موقوف ہو گیا ہے۔ 
غالباً سو سال پرانی بات ہے کہ ہائوس آف لارڈ کے ایک رکن نے ایک مرتبہ اپنی جواں سال بیٹی کے سامنے اپنی بیوی کا منہ چوم لیا۔ یہ بات چہار دیواری سے نکلی تو ایوان ِ بالا تک جا پہنچی جہاں لارڈ بہادر موصوف کی سخت مذمت کی گئی ۔ جہاں تک امن و امان کا تعلق ہے تو برطانیہ میں بھی نسلی فسادات یا کبھی کبھی مذہبی تصادم (3) رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ شمالی آئر لینڈ کا علاقہ جسکا مرکز بیلفاسٹ (4)ہے اکثر و بیشتر ہنگاموں کی آماجگاہ بنا رہتا ہے۔ نسلی تصادم کے ساتھ ساتھ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کا اختلاف بھی خونریزی کی شکل اختیا ر کر لیتا ہے ۔ آئی ۔ آر ۔ اے (5)کی ماضی کی سرگرمیاں ایشیا یا افریقہ کے کسی بھی فساد زدہ (6)خطے سے کم نہیں رہی ہے۔ حال ہی میں رومانیہ کے مہاجروں پر جو ظلم و ستم شمالی آئر لینڈ میں جو کہ برطانیہ کا حصہ ہے ڈھایا گیا وہ کسی صورت غیر تر قی یافتہ افریقہ کے نسلی فسادات سے کم نہ تھا ۔بہرحال اتنی لمبی بحث ڈاکٹر موصوف سے کرنے کا وقت نہ ملا لہٰذا میں نے یہ خیالات نذر قارئین کردئیے ۔  
تحریر کے اختتام پر حالات کے تناظر میں چار مصرعے پیش خدمت ہیں۔

قطعہ
اعلامیہ میں نام تک کشمیر کا نہ تھا
دونوں کے درمیان ہے جو اصلی مسئلہ
مانا کہ بات چیت کو جنگ پر ہے فوقیت
آخر مذاکرات کی ہو کوئی انتہا

1, Romantic School of Thought
2, George Sand
3, Racial riots or religious confrontation
4, Belfast
5, Irish Republican Army
6, Seat of Turmoil



Saturday 11 July 2009

حُسنِ فطرت کا بے مثال مظہر سنوڈوینا (۳ )پروفیسر سید ارشد جمیل

حُسنِ فطرت کا بے مثال مظہر سنوڈوینا (۳ )پروفیسر سید ارشد جمیل

سنوڈونیا (۱- انگریزی مُترادِفات بلاگ کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں)اغلباً دو الفاظ کا مرکب ہے ایک سنو (۲)یعنی برف اور ڈَون (۳)جس کے معنی پہننے کے یا سر(۴) کے ، گویا برف پوش چوٹی(یہ سارا علاقہ سردیوں میں برف سے ڈھکا ہوتا ہے البتہ یہ چوٹی سردیوں کے اختتام پر موسم گرما کے آغاز میں برف سے ڈھکی ہوتی ہے ہم جون کے آخر میں پہنچے تو برف پگھل چکی تھی ۔ یہ علاقہ نہایت سبز پہاڑوں وادیوں جھیلوں تالابوں اور سبزہ زارمیدانوں پر مشتمل ہے بعض پہاڑ بلندی پر ہر طرف پیلے پیلے پھولوں سے ڈھکے ہوئے تھے حسن کے مشاہدہ کے مطابق پہاڑوں پر سرسوں بوئی ہوئی ہے۔ جبکہ میں نے یہا ں گھروں کے لان میں کثرت سے اُگنے والے خود رو پیلے پھول کے پودوں کو جب قریب سے دیکھا تو دیکھا کہ ریننکیولس (۵)کی ایک قسم ہے ہمارے یہاں نتھیا گلی میں پہاڑوں پر یہ پودا ملتا ہے بالخصوص آبی گذرگاہوں کے کناروں پہ ڈھلانوں کے ساتھ ساتھ وہاں اسے جل دھنیا کہتے ہیں یہ معروف خوردنی دھنیا ہر گز نہیں ہے۔ انگریزی میں اسے بٹر کپ (۶) کہتے ہیں۔ میرا خیال ہے پہاڑی میدانوں میں یہی پودا لگا ہوا ہوگا ۔ قریبی مشاہد ہ کا اتفاق نہیں ہوا۔ اس لئے حسن کے مشاہدہ پر اعتماد کر لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی تحقیق شدہ مشاہدہ نہیں۔ ایک صبح ہلکی ہلکی پھوار میں اپنی قیام گاہ (تال سار نو) سے اسٹیشن کے لئے نکلے ۔ سنوڈونیا پہاڑی ریلوے کے ذریعے اس علاقے کی سب سے اونچی چوٹی کے سفر کے لئے ۔ یہ ریل کراچی میں ماضی میں چلنے والی ٹرام جیسے ڈبے پر مشتمل تھی لیکن انجن وہی قدیم بھاپ سے چلنے والا تھا جس پر ۱۸۸۵؁ کا سن پڑا ہوا تھا اگرچہ بظاہر یہ اسٹیم انجن تھا لیکن اسکے عقب میں ایک جدید ڈیزل انجن نصب تھا۔ کوئیلوں کے ذریعے چلنے والے ایک انجن کو بھی متحرک دیکھا جو ہو بہو بچوں کے کارٹون والے ہینری انجن جیسا تھا۔

سنوڈونیا مائونٹین ریل کا ایک حسین منظر

یہ ہمارے سفر کے بعد روانہ ہوا آدھے گھنٹے کی مسلسل چڑھائی اور 7 (سات )میل کا فاصلہ طے کرکے تقریباً تین ہزارچار سو فٹ کی بلندی پر پہنچے یہاں سے سنوڈونیا پہاڑ کی چوٹی اندازاً سو فٹ بلند ہے جو کوہ پیمائی کے ذریعہ سر کی جاتی ہوگی ۔ لیکن ہماری ریل نے ہمیں وہاں ٹھہرنے اور بلندی و پستی کا نظارہ کرکے لطف اندوز ہونے کے لئے صرف آدھا گھنٹہ دیا۔ پہاڑوں پر سبزہ اتنا گہرا تھا کہ نظر کو دھوکا ہو رہا تھا کہ سبز قالین بچھے ہوئے ہیں۔ اس بلندی کو ہمارے پہاڑوں کی بلندی سے کیا نسبت، کوہ ہندو کش اور کوہ قراقرم اور کوہ ہمالیہ کی بلند چوٹیاں مثلاً کے ٹو ، راکا پوشی ، گیشر برم ، ترچ میر، کن جن چنگا اور کوہِ ایورسٹ جو ۲۰ (بیس) ہزار فٹ سے ۲۹ (انتیس) ہزار فٹ کی بلندی کو چھو رہی ہیں اور دنیا کی بلند ترین چوٹیا ں ہیں۔

چہ نسبت کوہ ِ انگلستاں بہ کوہِ ایشیائی ؏

گوگل کے مطابق برطانیہ کی بلند ترین چوٹی سنوڈونیا ہے جبکہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ما ئونٹ ایوریسٹ ہے جو سنوڈونیا سے آٹھ گنا بلند ہے۔ دنیا میں زمینی بلندی اور پستی ملک یا خطۂ زمین کے باشندوں کی پستی اور بلندی کا مظہر نہیں ہوتی قوموں کی بلندی انکے اخلاق و کردار اور محنت پر مشتمل ہے عظمتِ قومی کے لئے اتفاق و اتحاد عدل و انصاف اور دیگر اقوام کے ساتھ سچا منصفانہ رویہ لازم وملزوم ہیں۔ آج مشرقی اقوام کی اکثریت جو پستی کا شکار ہیں تو غور طلب بات یہ ہے کہ پستی کے اسباب پر تحقیق و تحسس کی جائے اور جو امور اختیار کرنے لازم ہیں انہیں اختیار کیا جائے اور جو اور ترک کرنا ضروری ہیں انہیں قومی سطح پر ترک کرنا چاہیے۔ عملی استحکام اسی ترک و اختیار کا نام ہے جوقوموں کی بقا کا ذریعہ ہے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

مستحکم عمل کی ایک مثال ۲۶ جون کو دیکھنے میں آئی ناسا (۷) اور ایسا (۸)کی ایک مشترکہ کاوش یولیسِس (۹)ایک مصنوعی سیارہ جو آج سے اٹھارہ سال قبل خلاء میں چھوڑا گیا تھا جون کی ایک آخری شام شہابیوں اور قدرتی سیارچوں کی فہرست میں شا مل ہوگیا، جاتے جاتے کچھ نئی باتوں کی اطلاع دیتا گیا ۔ اول یہ کہ سورج کا مقناطیسی میدان نظامِ شمسی میں زیادہ پیچیدہ انداز میں رواں ہے گذشتہ تصورات سے کہیں زیادہ وسیع اور تمام نظام شمسی پر محیط ہے۔ دوم سورج سے خارج ہونے والے ذرات پہلے بلند طول البلد(۱۰) کی طرف چڑھتے ہیں پھر پست طول البلد کی طرف گرتے ہیں اور پھر غیر متوقع طور پر نظام ِ شمسی کے سیاروں کی طرف پھیل جاتے ہیں۔ اسطرح خلا پیمائوں کو مضر ذراتِ خلائی سے زیادہ سابقہ پڑتا ہے۔ یولیسِس (۹)یورپ اور امریکہ کی مشترکہ کاوش اپنے منصوبہ سے چار گنا زیادہ عرصہ تک کارفرما ئی کرتا رہا یعنی ساڑھے چار سال کے بدلے اٹھارہ سال چھ ماہ تک کام کرتا رہا ۔ رچرڈ مر سڈن مصنوعی سیارہ مشن کے سائنسدان اور منیجر کا کہنا ہے کہ یہ استحکام پائیداری اور مضبوطی درا صل بنانے والوں کی مہارت اور لگن اور ہنر مندی نیز مسلسل اسکی خامیوں کی اصلاح کرتے رہنے کی وجہ سے ہے۔ اسے الوداعی سلام (۱۱) کہنے کےلئے اس مشن کی ساری ٹیم ناسا(۷)میں جمع ہوئی تھی۔اللہ تعالٰی نے زمین کے ہر خطے اور ہر علاقے کو اپنے اپنے طرز کا حُسن عطا کیا ہےپہاڑوں کے بر عکس صحرائوں کا حُسن حقیقتاً انکی ہیبت سے زیادہ دلکش ہے۔ دور تک پھیلی ہوئے ریت اسمیں جگہ جگہ صحرائی ٹیلے اور ان ٹیلوں کے دامن میں گھاس اور جھاڑیاں اور پھر کہیں کہیں نخلستان (۱۲)۔ صحرا کی گردن میں حمائل سبزہ و گل ، ہار(۱۳)کا منظر پیش کرتے ہیں۔ الصحرا(۱۴) کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے نخلستان میں کھجور اور کیکر یا مغیل (عربی میں تمر اور اقاقیہ عربی) کے درخت ہجوم در ہجوم بمعہ سبزہ َ زیریں درسایہ ٔ شجر (۱۵)نظر آتے ہیں۔

بقول شاعر انِ ذی وقار ۔۔۔

۱۔؏ شام کے صحرا میں ہو جسے ہجوم نخیل

علامہ اقبالؔ

۲۔ ؏ موجِ صبا نے لوری دے کر کتنے سادہ رو پھولوں کو

خارِ مُغلیاں کی سیجوں پر میٹھی نیند سلا رکھا ہے

سید عابد علی عابد

بات مغیل یا کیکر کی چل نکلی ہے عربی میں اسے اقاقیہ کہتے ہیں اور بائیلوجی کا نام آکیشیا عربیہ(۱۶) ہے اسکے سایہَ میں ننھے منھے پھولوں کے پودے اور مختصر بیلیں تھکے ماندے مسافروں کی مانند پیر پسارے لیٹی ہوئی ہوتی ہیں جسکی طرف عابد ؔ نے اشارہ کیا ہے۔

پھول کی مُسکاں میں پنہاں زندگی کا راز ہے

حسنِ فطرت کی نمائش کا حسیں انداز ہے

۔۔۔۔ ارشدؔ جمیل

اگرچہ یہاں بیشتر مقامات قابل دید تھے لیکن ہم نے واپسی کے سفر کے لئے روانگی سے قبل صرف گرین وڈ فاریسٹ پارک دیکھا جو ایک طرف قدرتی جنگل معلوم ہوتا تھا تو دوسری طرف ایک خوشنما خوبصورت سجی سجائی تفریح گاہ بھی تھی کہ جس میں بچوں ،جوانوں اور ادھیڑ عمر کے لوگوں کے لئے تفریح کا سامان ڈریگن ریل، کشتی رانی ، تیر اندازی، تین پہیوں کی سائیکل کا ٹریک، بچوں کے لئےچھوٹے الیکٹرک ٹرک، پیدل سفر کی پگڈنڈیاں اور بچوں کے لئے سی سا(۱۷)جھولے ۔ پائپ ٹنل ۔ اور طرح طرح کے کھیل کے علاوہ مسخرہ(۱۸)کا تماشا بھی پارک کے بند ہونے تک جاری رہتا ہے۔ اس جنگل نما باغ میں بھی پھولوں اور درختوں پر بائیلوجی کے نام کی تختیاں لگیں تھیں۔ یہاں راقم ،ایمان اور ایمان کی دادی کو دہشتناک ڈریگن ٹرین میں بیٹھنے سے روک دیا گیا اسطرح ہم ایک خوفناک تفریح سے بچکر گھر لوٹ آئے ۔ اور یوں حسین سنوڈونیا کا دلربا سفر اختتام پذیر ہوا۔


۱)Snowdonia
۲)snow
۳) Don
۴)head
۵) Ranunculus
۶) buttercup
۷) (NASA)
۸) (European Space Agency) ESA
۹)Ulysses
۱۰) (Latitude)
۱۱) (Goodbye)
۱۲) (Oasis)
۱۳) (Garland)
۱۴) (Sahara Desert)
۱۵)(Under Arboreal shade vegetation)
۱۶) Accacia Arabia
۱۷)Sea-Saw
۱۸) (Clown)
آپ کی تجاویز اور تبصرہ یقیناً اہم ہیں۔ امید ہے آپ بھی اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ حسن جمیل

Wednesday 1 July 2009

سنو ڈونیا حُسن ِ فطرت کا مظہر۔2 پروفیسر سید ارشد جمیل

سنو ڈونیا حُسن ِ فطرت کا مظہر۔2 پروفیسر سید ارشد جمیل
زندہ قومیں اپنے آثار ِ قدیمہ کی دل و جان سے حفاظت کرتی ہیں۔ برطانیہ میں بھی ان آثار کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایک روز ہم ہارلچ قلعہ دیکھنے گئے لیکن شام وقت زیادہ ہو گیا تھا اندر جانے کا وقت ختم ہو گیا تھا لہٰذا باہر ہی سے دیکھ لیا۔ ہمارے قلعے رہتاس، لاہور کا قلعہ ، رنی کوٹ، حیدر آباد کا قلعہ، کوٹ ڈی جی اور قلعہ ملتان وغیرہ خاصے بڑے بڑے قلعے ہیں۔ یہ ہارلچ قلعہ نسبتاً چھو ٹا ہے پتھروں کا بنا ہوا یہ قلعہ زمانے کے دست برد سے اگرچہ کہیں کہیں سے مخدوش تھا لیکن اپنی مضبوطی کے باعث ہنوز سر اُ ٹھائےکھڑا ہے۔
ہارلیچ کے قلعہ کا ایک منظر
کنوائے کا قلعہ البتہ عظیم الشان ہے اور ایڈورڈ اول کے دور کی ایک شاندار تعمیر ہےجیسے گریٹ بر ٹن [عظیم برطانیہ کی سلطنت] کبھی اتنا عظیم تھا کہ اس میں سورج غروب نہ ہوتا تھا لیکن آج کا یوکے مختصر ہونے کے باوجود اپنی مضبوط و توانا روایات کے قدموں پر کھڑا ہے اگرچہ وہ شان اور وہ آن بان تو باقی نہیں رہی لیکن امریکہ کا سہارا دنیا پر دھاک بٹھانے کے لئے کافی ہے یہ دوسری بات ہے کہ امریکہ کے تھنک ٹینک اسکے سرنگوں ہونے کی اور سرداری کی منتقلی کی نوید سنا رہے ہیں نوم چومسکی کا نام اس ضمن میں خاصا مقبول ہے۔ اس نے اپنی ایک کتاب میں امریکہ کو دنیا کا سب سے بڑا دادا گیر قرار دیا ہے۔ جمی کارٹر اپنی کتاب(۱) *میں رزقم طراز ہیں : امریکا داخلی انتظامی حوالے سے شدید بحران کا شکار ہے (ص ۲۳) 35 زیادہ آمدنی والے ملکوں میں ہونے والے مجمو عی قتلوں میں سے ۱۹ گنا زیادہ امریکہ میں ہوتے ہیں گویا سب سے زیادہ قتل امریکہ میں ہوتے ہیں (ص۲۹) امریکی لڑکیاں فرانسیسی لڑکیوں کے مقابلے میں ۷ گنا زیادہ تعداد میں ایک بچے کی ماں ہیں جبکہ یہ ایک مرتبہ اسقاط حمل کرا چکی ہیں۔ ۷۰ گنا زیادہ لڑکیا ں سوزاک کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی کے ٹین ایجرز (۱۳ تا ۱۹ سال کی عمر، اردو زبان میں ایک سے سو تک گنتی میں صرف گیارہ سے اٹھا رہ تک ''ہ'' ہوز لگتی ہے اگر اسے عمر ہائے ہوز کہا جائے تو نا مناسب نہ ہوگا۔) کے مقابلے میں امریکہ کا ٹین ایجرز (عمر ہائے ہوز ۵ گناہ زیادہ ایڈز کا شکار ہوتے ہیں(ص۸۰) جب امریکیوں سے ہم جنس پرستی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو انکی اکثریت اثبات میں جواب دیتی ہے(ص ۳۰) اب طلاق خطرناک حد تک عام ہو چکی ہے۔ تمام امریکی بالغوں میں سے ۲۵ کو کم از کم ایک مرتبہ طلاق ہو چکی ہے (ص۷۵) ۔ (امریکہ کا اخلاقی بحران: جمی کارٹر: مترجم محمد احسن بٹ دار الشعور لاہور- بحوالہ ترجمان القرآن۔جون ۲۰۰۹) پھر اسکی گرتی ہوئی معیشت وغیرہ سے انکے مفکرین کا یہ اندازہ کہ دنیا کی قیادت امریکہ کے ہاتھ سے جانے والی ہے کچھ غلط بات نہیں لگتی۔ عراق اور افغانستان کی جنگ کے اخراجات سے معیشت پر مزید بوجھ اسکے زوال کو اور قریب لا رہا ہے۔ حال ہی میں ایران میں برطانیہ کی مداخلت سے جو یقیناً امریکہ کی شہ پر ہے امریکہ اور برطانیہ سے دنیا کی نفرت اور بڑھے گی۔ برطانوی سفارت خانے کے ملازم جو کہ ایرانی ہیں وہ آلہ کار کے طور پر میر حسن موسوی کے ساتھ ایک نہایت قلیل شہری گروہ کو احمدی نژاد کے خلاف اکسا رہے ہیں۔ آج ہی یہ خبر بھی بی بی سی نے نشر کی کہ وہ گرفتار ہو گئے ہیں یورپی یونین نے انکی رہائی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ دوسری طرف جمہوریت کے ان ناخدائوں کی زبان سے بھاری اکثریت کے بل پر کامیاب ہونے والے شخص کے بارے میں کوئی کلمہَ استحسان نہ نکلا۔ یہ ناخدا اپنی من پسند جمہوریت یا حکومت کے لئے رطب اللسان ہوتے ہیں۔ خواہ وہاں آمریت یا نام نہاد جمہوریت ہو اندر سے چاہے وہ آمریت ہی کیوں نہ ہوجیسا کہ گزشتہ دور میں پرویز مشرف کی حکومت تھی تو یہ اس پر نہ صرف تحسین و آفرین کے ڈونگرے برساتے ہیں بلکہ دامے درمے سخنے ہر طرح مدد فرماتے ہیں۔ یہ مدد تمام کی تمام بالعموم حکمراں طبقہ اور اعلٰی سرکاری افسران کی دست برد سے نہیں بچتی لہٰذا ایسے ممالک غریب کے غریب رہتے ہیں اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے رہتےہیں۔ ایران چونکہ اسطرح کی عیا رانہ چالوں میں امریکہ اور یورپ کی ناز برداری بلکہ صاف لفظوں میں حکم برداری نہیں کررہا ہے لہٰذا یہ انہیں کسےع گوارہ ہو کہ وہ آزاد خارجہ پالیسی آزاد معیشت اور اپنی معاشرت و سیا ست میں خود مختار ہو کر جیئے۔
معذرت کہ آج تو قلم بہت دور جا نکلا ۔ سنوڈونیا کا تذکرہ جاری ہے۔ ہم کنوائے کیسل کو دور سے دیکھتے ہوئے گزر گئے لیکن اندازہ ہوا کہ خاصا بڑا مضبوط اور پائیدار ہے اور اب بھی ایڈورڈ اول کے زمانے کی شاندار تعمیر کا نمونہ ہے۔ سنوڈونیا میں ایک باغ بوڈنینٹ قابل دید جگہ ہے۔ اَسّی ایکڑ کے رقبے پر لگا ہوا یہ باغ انسانی کاوش اور حسنِ فطرت کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ داخل ہوتے ہی ہم دورویہ درختوں سے بنی ہوئی ایک محراب سےگزرے اس میں سروں پر اصلی لیبرنم کے پھول لٹکتی ہوئی شاخوں سے محراب بنا رہے تھے اس محراب سے گزرے اس میں صرف اور صرف پیلے پیلے پھول ہی پھول نظر آتے ہیں۔


راقم، حسن جمیل ایمان جمیل اور فرخ جمیل پس منطر میں لیبر نیم کے پھولوں کی محراب
باغ میں گھاس کے قطعات اطالوی طرز کی روشیں قطعات کے کناروں پر کیاریاں خوبصورت تالاب میں حسین کنول کے پھول۔ شاہ بلوط، سرو، صنوبر، فر، چیری ، ڈیفوڈل ، کمیلیا ، مگنولیا (چمپا کی ایک قسم) رھوڈو ڈینڈران، ایزیلیا اور گلاب کے قطعات نہایت سلیقہ سے لگائے گئے ہیں۔ انکے علاوہ بے شمار اقسام کے پودے انکے نباتاتی ناموں کی تختی کے ساتھ لگے ہوئے تھے راقم نے کیو گارڈن ابھی تک نہیں دیکھا اسکے بارے میں پڑھا اور رسائل میں تصاویر دیکھی ہیں مجھے وہی منظر محسوس ہو رہا تھا سوائے ان گرین ہائو سز کے کہ جو کیو*(۲) کے رائل باٹنیکل گارڈن میں مختلف آب و ہوا پیدا کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ اس باغ کے درمیان سے ایک پہاڑ ی ندی گزر رہی ہے۔

کنول کے پھولوں کا تالاب بوڈنینٹ باغ

جو ایک ہلکے سے آبشار کو جنم دیتی ہے۔ اس باغ میں پکنک ممنوع ہے۔ نیز شراب و سگرٹ نوشی پر بھی پابندی ہے۔ ہمارے ملک میں اگر باغ میں یہ کتبہ آویزاں ہو کہ یہاں کھانا پینا ممنوع ہے تو آپ دیکھتے ہوںگے کہ عین کتبہ کے نیچے لوگ بیٹھ کر کھا پی کر چھلکے اور خالی ڈبے وہیں پھینک کر چلے جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مغربی اقوام نے کچھ قواعد اور روایات مقرر کی ہیں وہ ان پر نہایت سختی سے عمل کرتے ہیں ہم ان کی ان تمام باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور امریکہ و یورپ کے دورے سے یا تعلیم حاصل کرکے اس اعتبار سے خالی لوٹتے ہیں۔ (سنوڈونیا کا تذکرہ جاری ہے)۔



*(۱) Our Endangered Values: America's Moral Crisis
*(۲) Kew





Friday 26 June 2009

سنو ڈو نیا نیشنل پارک حسن ِ فطرت کا بے مثال مظہر۔ میاں طفیل محمد ؒ کا انتقالِ پُر ملال

سنو ڈو نیا نیشنل پارک حسن ِ فطرت کا بے مثال مظہر۔ میاں طفیل محمد ؒ کا انتقالِ پُر ملال پروفیسر سید ارشد جمیل
نماز پڑھنے جا رہے تھے کہ میرے بیٹے نے کار کے شیشے تھو ڑے سے کھول دئے جو ہوا اندر داخل ہوئی اس سے غنودگی کے اثرات طاری ہوئے۔ حسن [میرے بیٹے] نے کہا ابو آپ وضو سے ہیں، میرے منہ سے برجستہ نکلا
؏ زمستانی ہوائوں میں نشہ ہے عیش وعشرت کا
یہ عیش و عشرت اہل برطانیہ کی صدیوں پر محیط جدو جہد اور کشمکش کا نتیجہ ہے انکا نظامِ زندگی روایات کا احترام عدل وانصاف کے اصولوں پر سختی سے عمل اور ماحول کو ظاہری حسن سے آراستہ و پیراستہ کرنے کا نتیجہ ہے۔گزشتہ ہفتہ نارتھ ویلز میں ایک مقام سنوڈونیا دیکھنے جانا ہوا ہمارا پانچ روزہ قیام تال سارنو کے قصبہ میں ایک تین کمروں کے مکان میں تھا۔ سنوڈونیا نیشنل پارک 823 مربع میل کے رقبہ پر پھیلا ہوا ہے تال سار نو کا یہ مکان جو ''دامان ِ کوہ میں ایک چھوٹا سا جھونپڑا تھا'' [اقبال کے مصرعے میں ادنٰی تصرف پر معذرت ]پہاڑ کی دیوار ِ زیریں کے سائے تلے بنا ہوا تھا ۔


تال سارنو کے مضا فات کا ایک حسین نظارہ۔ تصویر حسن جمیل نے لی
اس میں بالائی منزل کے ایک کمرے سے باہر بے حد چھو ٹا سا ایک پارکچہ بر وزن کِتا بچہ تھا ، مجھے کاف کے نیچے زیر لگا نا پڑا اس لئے کہ ایک بار ایک چھوٹی سی اصطلاح لیف لیٹ کی تشریح کے دوران بُک لیٹ کا ذکر آیا اور میں نے بورڈ پراسکا ترجمہ اردو میں لکھا کتابچہ ایک ضرورت سے زیادہ سمجھدار طالبعلم نے کھڑے ہوکر سوال داغا سر ! بُک لیٹ کا تر جمہ کُتّا بَچّہ کیسے ہو سکتا ہے۔ راقم نے خیال ہی خیال میں اپنا سر پیٹ لیا۔ بائیلوجی میں لیٹ کا لاحقہ اکثر استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً فلوریٹ ، پمفلیٹ [ایک چپٹی مچھلی] وغیرہ وغیرہ۔اگر چہ اردو میں لفظ باغیچہ موجود ہے مگر یہ پارکچہ کی اصطلاح اسلئے وضع کی کہ یہ کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے باغیچہ کا تصور کریں تو یہ اس سے بھی چھوٹا تھا۔ ظاہر ہے بالائی کمرے کی عقبی دیوار سے متّصل پہاڑ کاٹ کر چھ ضرب چھ فٹ کا ایک قطعہ جس میں لان تھا اور گملے رکھے تھے ہمارا پارکچہ تھا تال سارنو سنوڈنیا نیشنل پارک کا ایک نہایت مختصر سا قصبہ ہےجس کے قریب ایک قلعہ ہالرچ نامی موجود جبکہ ذرا سی دورمصنوعی طور پر بنائی گئی ملاحوں کی ایک بستی پورٹ میریون ہے۔ ہالرچ سے چند فرلانگ مغرب کی جانب ساحلِ سمندر قدرتی کٹا ئو اور جھاڑ جھنکار کے علاوہ ریتیلے ٹیلوں پر مشتمل ہے۔ پورٹ میریون میں خوبصورت باغ اور باغیچے موجود ہیں جن کے وسط میں بارہ دری اور تالاب حسین منظر پیش کرتے ہیں۔ برطانیہ میں نیشنل پارک وہ علاقے ہیں جہاں قدرتی مناظر جنگلی حیات اور سبزہ کو سرکاری تحفظ حاصل ہے۔ یہاں کاشتکار کو سرکا ر سے رقم ملتی ہےاور آلو کی فصل تیا ر ہو جاتی ہے تو اس کے دام ملتے ہیں بھیڑیں پالی جاتی ہیں جن سے اون اور گوشت حاصل ہوتا ہے۔ برطانیہ میں وسیع پیمانے پر لیمب [بھیڑ] کا گوشت کھایا جاتا ہے اور بکرے کا گوشت ہر جگہ دستیا ب نہیں۔ اہل برطانیہ کی مرغوب غذا مچھلی اور آلوکی تلی ہوئےقاشیں [فش اینڈ چپس] ہے پورٹ میریون میں ہم نے دوپہر کے کھا نے میں فش اینڈ چپس کھا ئے۔ قدرتی مناظر میں ہمارے شمالی علاقے سوات ، کالام ، مری ، نتھیا گلی زیارت گلگت کاغان اور ناران کسی صورت ان علاقوں سے کم نہیں ہیں بلا شبہ یہا ں چاروں طرف ننھی ننھی پریوں نے حسین اور رنگین پیراہن اقبال کا شعر پھر بہ ادنٰی تصرف معذرت کے ساتھ ملاحظہ ہو
پھول ہیں میداں میں یا پریاں قطار اندر قطار ؏
اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن


دائیں سے ایمان جمیل ،حسن جمیل، راقم سنو ڈونیا کا ایک حسین منظر

یہ سطور لکھ رہا تھا کہ میاں طفیل محمد ؒکے انتقال کی خبر ملی لہٰذا اسے مؤخر کرنا پڑا ۔
میاں طفیل محمد مرحوم قاضی حسین احمد صاحب سے اجتما ع کے موقع پر مصافحہ کرتے ہوئے
سنوڈونیا کا تزکرہ ہنوز جاری ہے ۔ چند اشعار بسلسلۂ رحلت ِ میاں طفیل محمد ؒ قلم بند ہو گئے پیش خدمت ہیں۔
اک رہنما ئے عالم اسلام چل دیا پروفیسر سید ارشد جمیلؔ
[میاں طفیل محمؒد صاحب کے انتقال پر لکھی گئی]
اک رہنمائے عالم اسلام چل دیا ۔وہ جا نشین ِ سیدی ، سید سے جا ملا
اک بندہ خدا *نے وہ رستہ دکھا دیا۔رہبر نے ایک ذرے کو ہیرا بنا دیا
بالاتفاق رحلتِ سید کے بعد آپ ۔ تحریک ِ دیں کا لے کے چلے دائمی نصاب
اعدانے گر چہ کردیا عویٰ بالاتفاق۔ شیرازہ ہوگا منتشر اب باعث نفاق
اخلاص اور نظم ِجماعت کا اہتمام۔ اسلام اور دعوتِ دیں پر رہا قیام
تنقید اقتدار پہ کرتے تھے برملا ۔ باطل سے اختلاف کا ذاتی سبب نہ تھا
بے لاگ بات کرتےتھےوہ مصلحت بغیر ۔ تحریکِ دیں کو فوقیت اپنا ہو یا ہوغیر
موقف سے اپنے ذرہ برابر نہیں ہٹا۔ ظالم نے کی اگرچہ تشد د کی انتہا
راہ خدا میں صرف ہوئی زندگی تمام
اسلام کے نفاذ کے داعی تجھے سلام
*مستری محمد صدیق جو میاں صاحب کو تاسیسی اجلاس میں لانے کا سبب بنے
پروفیسر سید ارشد جمیل مڈلز برا ، برطانیہ۔ فون 00441642289885



Thursday 25 June 2009

بے خبری یا با خبری پروفیسر سید ارشد جمیل

بے خبری یا با خبری پروفیسر سید ارشد جمیل
مڈلز برا کی ایک بند گلی سالکوم میں ایک نیم کشادہ مکان کے لان میں صبح میں اور میری پوتی اور اہلیہ چہل قدمی کرتے ہیں جو پتے جھڑتےجاتے ہیں میں ،میری پوتی اور اسکی دادو امی جھک جھک کر اٹھا کر ایک کونے میں جمع کرتے جاتے ہیں۔ یہاں اتوار کے دن میرے بیٹے لان مور چلاتے ہیں۔ میری اہلیہ ذرا دور تک واک کرکے گھر چلی جاتی ہیں جبکہ میں اور ایمان جمیل[پوتی] لان میں پتے چنتے رہتے ہیں ایمان کی دادو کا ارشاد ہے کہ برنارڈ اسطرح جھکنے اور پھر اٹھنے کو صحت کے لئے ایک مفید عمل گردانتے ہیں یہ جارج برنارڈ وہی ڈاکٹر ہیں جنہوں نے جنوبی افریقہ میں ہارٹ ٹرانشپلا نٹیشن [تبدیلی قلب] کا پہلا آپریشن کیا تھا۔ راقم نے اور راقم کی اہلیہ نے انکی کتاب صحت اور حفظان صحت پرمشتمل مشوروں سے لبریز خود نوشت پڑھی ہے اور واقعی یہ مشورہ آدمی کو سکون عطا کرتا ہے یعنی ریلیکس کرتا ہے۔ویسے ہم تو دن میں کم از کم سترہ بار تو جھکتے اور پھر اٹھتے ہیں۔ آج جب میں اور میرا ننھا مدد گار ''برگ چُنی'' یعنی لیف کلیکشن کر کر کے ایک کارنر میں جمع کر رہے تھے تو ہوا کبھی پتوں کو بکھیر دیتی تھی اورکبھی اڑا کے لے جاتی تھی۔ راقم کو اس پر اپنا ہی ایک شعر یاد آ گیا اگرچہ اس مفہوم کے اور بھی اشعار مختلف شعراء نے کہے ہوں گے لیکن فی الحال آپکی تفریح سماعت یا تفنّنِ طبع یا اگر آپ کو پسند نہ آئے تو سمع خراشی کےلئے حاضر ہے ۔
؏ چند لمحات گزارے بہ صبا خانہ بدوش
کیا ملا شاخ سے اے بر گ بچھڑ جانے سے
ہم جب مئی کے آخر میں مڈلز برا پہنچے تو اگرچہ بہار رخت ِ سفر باندھ چکی تھی لیکن خوشگوار موسم اور تابڑ توڑ بارشوں نے اپنے شہر کی گرمی جو کہ کوئٹہ کے بعد ملک کے بڑے بڑے شہروں میں سب سے کم گرمی مانی جاتی ہے۔[ بلکہ کبھی کبھار تو کراچی کا درجہ حرارت کوئٹہ سے کم ہوتا ہے،گرمیوں میں] کے اثرات دھو دیئے۔ بلکہ سچ پوچھئے تو مجھے تو کبھی کبھی باہر نکلتے وقت جیکٹ کے نیچے سوئٹر پہننا پڑتا ہے۔ لیکن میں اکثر لان میں چہل قدمی کے لئے ایسے ہی نکل جاتا ہوں۔ ایمان جمیل کو ٹھنڈ بالکل نہیں لگتی ۔ اس کی خوش مزاجی نے آج ہمارے پڑوسی لو رینزو سے تعارف کرادیا وہ اپنے لان میں ٹہل رہے تھے کہ ایمان صاحبہ [جو ابھی بمشکل ڈھائی سال کی ہیں] ان سے ہیلو ہائے کرنے پہنچ گئیں۔
مختصر تعارف کے بعد باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھا کہ آپ کیا پڑھاتے تھے راقم نے بتا یا کہ میں ہائر سیکنڈری اسکول یعنی اعلٰی ثانوی اسکول کی سطح پر بائیلوجی اور گریجویشن کی سطح پر باٹنی پڑھاتا تھا موصوف نے فرمایا معذرت باٹنی کیا ہوتی ہے پہلے تو میں سمجھا کہ میرے انگریزی کے لہجے سے انہیں بات سمجھ میں نہیں آئی لیکن جب میں نے دوبارہ ذرا ٹہر ٹہر کر باٹنی دہرایا تو معلوم ہو ا کہ موصوف نا واقف ہیں یا بھول گئے ہیں میں نے تشریح کی تو پھر کچھ سمجھنے کے سے انداز اختیار کئے۔ ایک طرف یورپ کے ایک عام پڑھے لکھے کا یہ حال ہے تو دوسری طرف کل ۲۳ جون کو میں نے بی بی سی ریڈیو سے خبر سنی کہ ایک مشہور براڈ کاسٹر اور ٹی وی کا میزبان اور زبر دست پیانو بجانے والا اسٹیفن ریس ۸۸ سال کی عمر میں آنجہانی ہو گیا ۔
اسی دن شام کو میں نے گوگل کے ذریعے وکی پیڈیا میں تلاش کیا تو معلوم ہوا اسٹیفن ریس کا نہ صرف ذکر ہے بلکہ ۲۲ جون ۲۰۰۹ کو انتقال کا بھی تذکرہ ہے ۔ یہ خبر بطور اطلاع وہاں درج ہے۔گویا مغرب کی صورت و صوت کی دنیا کا ایک صدا کار محفل سے اٹھ گیا۔بقول جگر
؏ جان کر مِن جملہء خاصان ِ میخانہ مجھے
مدّتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
واہ کیسی بے خبری اور کیسی با خبری ۔ بہر حال پہلا عمل چنداں قابل توجہ اس لئے نہیں کہ یہ شاذ بھی ہو سکتا ہےجبکہ دوسرے عمل پر ان اقوام کو کہ جو علم تعلیم تعلم اور معلومات کے میدان میں تو مغربی اقوام کی پیروی نہیں کرتی ہیں جبکہ لباس وضع قطع چال ڈھال ناچ رنگ خاندانی معاملات معاشقے دوستیاں اور ذاتی دشمنیوں میں مغربی فکرو عمل [تباہی طرف گامزن روش] کی ضرور پیروی کرتی ہیں کاش انہیں یہ علم ہوجائے کہ علم کے باب میں تساہل سے انسان کتنی بڑی دولت سے محروم ہوجاتا ہے جبکہ مذکورہ بالا روش اگر اختیار نہ بھی کی جائے تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اہل مشرق کو لباس کے بدلے کتا ب ، ناچ کے بدلے کمپیوٹر ، خاندان کی تباہی کے بدلے والدین اور بزرگوں کی محبت اور احترام اور مشرقی روایات کو از سرِ نو رائج کرنا چاہیے یہ وہ اسباق ہیں جو مجھے یورپ اور برطانیہ کی صاف ستھری گلیوں، ہر لمحہ مرمت کی جانے والی سڑکوں ، ہر سٹی کونسل کے ذمہ داران کا بے حد احساس ذمہ داری کے ساتھ کام اور ہر فرد کا اپنے ماحول اور خود ذات کو صفائی ستھرائی سے رکھنا دوسروں کے معاملات میں بے جا مداخلت سے بچنا ، ٹریفک قوانین کی پابندی سختی سے کرنا ، نظر آتے ہیں ہمارےلوگ ان ملکوں کا دورہ کرنے والے ٹریننگ پر آنے والے افسران اور دیگر افراد بالکل نظر انداز کرکے جاتے ہیںورنہ وہ بھی جنوب مشرق کے ممالک میں ملائیشیا کی طرح عمل کرتے۔ کاش انہیں یہ احساس ہوجاتا کہ گلیوں کو مکانات کو سڑکوں کو صاف رکھنا ہی کتنی بڑی نعمت ہے جس سے ہم محروم ہیں۔ جگر کا ایک مصرعہ یاد آیا کیا خوب ہے۔
؏فکرِ جمیل خواب ِپریشاں ہے آجکل

Tuesday 23 June 2009

کثیر الجہتی ایجنڈا پروفیسر سید ارشد جمیل

پی پی اور نون لیگ میں مفاہمت کی ڈور اگرچہ کھنچتے کھنچتے اتنی زیادہ تنائو میں آگئی ہے کہ کبھی بھی ٹوٹ سکتی ہے حالیہ اسمبلی کے اجلاس میں نون لیگ کے سرکردہ رہنما کو صدر کے غیر ملکی دورے اور افواج پر بھاری اخراجات [از قسم غیر ترقی پذیر ] بہت ناگوار گزرے اور اسمبلی میں ان پر تنقید کےباعث دونو ں جانب کے ارکان نے پھر ڈور کو کھینچ کھینچ کر توڑنے کی بھر پور کوشش کی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس ڈور میں سوت کے ساتھ ساتھ مفادات کی نائیلون کا تار بھی شامل ہے کہ کمبخت ہر بار کنٹرول لائن پر حد متحاربہ کو چھوڑ کر واپس لوٹ آتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا مزاج بڑا عجیب ہے یہ بھی مذہبی رہنمائوں اور شیوخ کے پیروکاروں کی طرح کسی قسم کی تنقید اپنے رہنمائوں پر برداشت نہیں کرتی ہیں اور معمولی تنقید پر بھی ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جاتی ہیں خواہ وہ صوبائی اسمبلی کا فلور ہو یا قومی اسمبلی کا حال یا سینٹ کا ایوان۔ یہ جماعتیں جمہوریت کا راگ اٹھتے بیٹھتے الاپتی رہتی ہیں مگر ان کے یہاں اندرون جماعت جمہوریت عنقا ہے بلکہ اندرون جماعت انتخاب کا نام لینے والے کا پتا صاف کر دیا جاتا ہے۔ آج ن لیگ کے سرپرست جناب نواز شریف نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت نئے محاذ کھولنے سے گریز کرے موصوف کے بقول شدت پسندی کی بنیادی وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے حقیقت بھی یہی ہے نیوٹن کا حرکت کا قانون اول بھی یہی کہتا ہے کہ ہر حرکت کا مساوی اور مخالف رد عمل ہوتا ہے۔ To every action there is an equal and opposite reaction. اسمبلی کے فلور پر گیند پھینکو گے تو واپس تمہیں آ کر لگے گی اسمبلی ہال کی کھڑکی کے بند شیشوں پر کہ جنکی پشت پر مزید پٹ چھڑھے ہوئے ہیں ٹارچ کی روشنی مارو گے تو وہ منعکس ہو گی مگر روشنی کسی اور چہرے کو سیاہ سے سفید کر رہی ہو گی ۔لیجئے قلم بہک گیا سائنسی اصول کی تشریح اسمبلی ہال پر ہونے لگی۔ یاد آیا ہمارے فزکس کے استاد چھوٹے آئر صاحب جنہوں نے ہمیں کالج میں پڑھایا تھا [جبکہ آنجہانی بڑے آئر صاحب نے ہمیں ہائی اسکول میں پڑھایا تھا]۔ آنجہانی چھوٹے آئر صاحب فرمایا کرتے تھے کلا س روم کی کھڑکی کے شیشے پر پتھر مارو گے تو جتنی طاقت استعمال کروگے اُسی حساب سے نقصان ہو گا ۔ بھر پور طاقت سے پتھر مارو گے تو شیشہ سینکڑوں کرچیوں میں بکھر جائے گا[ ہو سکتا ہےکوئی کرچی تمہاری آنکھ پھوڑ دے]۔ 
اْس وقت ڈرونز طیارے اور خود کش جیکٹیں نہیں ہوتی تھیں ورنہ شاید انکی مثال دیتے۔
نون لیگ کے سربراہ نے مزید ایک پتہ کی بات کی بحرانوں سے نجات کے لئے کثیر الجہتی ایجنڈے کو لے کر چلنا ہوگا۔ کیا موصوف نے غور کیا کہ حکمراں ٹیم کےترجمانوں کے بھانت بھانت کے بیانات کی روشنی میں کسی کثیر الجہتی ایجنڈے پر اتفاق ہو سکتا ہے ؟ اول تو یہ اصطلا ح یہ نا قابل فہم ہے مثلاً الف کی جہت امریکہ کی تابعداری ہے ب ،اور ج، کا ایجنڈا امریکہ مخالف پالیسی اختیا ر کرنے پر زور ہے جبکہ د، اور،ھ کی سمتیں ان دونوں سے بالکل جدا جدا ہیں۔ سادہ سے الفاظ میں ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ امریکہ کی اطاعت میں فوجی آپریشن صورت حال کو ابتر کر رہا ہے اور اس جہت پر پاکستان کی اکثریت یقین رکھتی ہے۔ جبکہ حکومت کا موقف یہ ہے کہ امریکہ ہمارے علاقوں میں فوج کشی کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف ہم سے جنگ لڑا رہا ہے اور ڈرونز حملوں کا ذریعے خود بھی برسر پیکا ر ہے۔ اگرچہ ہمارے علاقوں میں اس جنگ سے ہمارے ہی لاکھوں افراد مصائب مشکلات بے گھری،خوراک، علاج و تعلیم سے محرومی جیسے مسائل سے دوچار ہیں حکومت کا موقف اور امریکہ کا منشا یہ ہے کہ اس سے بھی زیادہ ہونا چاہیےاور مزید محاذ کھلنے چاہیں۔ علادہ ازیں ایک جہت وہ ہے کہ جس میں پسماندہ صوبے کے نوجوانوں کو بلکہ نادانوں کو پڑوس کی ایک ازلی مخالف قوت ہر طرح سے دامےاور درمے آمادہ پیکار علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہی ہے اور ۱۹۷۱ کے مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا کرنے کے در پے ہے۔ ان نادانوں کو وہ حکایت یاد نہیں جس میں ایک ضعیف دانا کسان نے اپنے چاروں بیٹوں کو بستر مرگ پر سوت کے دھاگوں کا ایک ایک بغیر بٹا لچھا ہر ایک کو دیا اور کہا اسے توڑو ہر بیٹے نے ذرا سی طاقت سے وہ لچھے توڑ دیئے پھر کہا ایسے چار سوتی دھاگوں کو بٹ کر ایک رسی بنائو اور پھرہر ایک سے کہا کہ اسے توڑو لیکن وہ نہیں ٹوٹی ۔ کسان نے کہا بیٹا باہمی اتفاق سے رہنا تو تمہاری طاقت کے آگے دشمن ٹہر نہیں سکے گا۔ کاش یہ لوگ اس بات کو سمجھتے کہ ؏ وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ کاش ہمارے سیاستداں نقطہ اتفاق سمجھتے اور قوم کو انتشار سے نکالنے کے لئے خود ایک نظریہ پر متفق ہوتے۔