Wednesday 29 July 2009

عبرت کدہ، کلیولینڈ شو مڈلز برا-پروفیسر ارشد جمیل

ایک عجیب و غریب نقشہ ایک فنکار کے نگار خانے میں سجا ہوا ہے وہاں کبھی کبھی حیرت انگیز واقعات رونما ہو جاتے ہیں غوری بڑا ماہر مجسمہ ساز ہے جہاں وہ اپنے فن کو تحیلاتی طور پر مُتشکِّل کرتا ہے یعنی اپنے تصورات میں بسی ہوئی حسین دنیا کو چوبی(لکڑی کے بُت)( 1 )مجسموں کی شکل میں اتارتا ہے۔ وہیں وہ بڑے بڑے جغادری لیڈروں ، آمروں اور حکمرانوں کے مجسمے بھی بناتا ہے اور ان مجسموں کو فروخت نہیں کرتا بلکہ انہیں اپنے فنکدہ کے ایک نیم تاریک کمرے میں (جہاں تازہ ہوا کا گذرقطعی نہیں)نصب کرتا ہے کہتا ہے "یہ عبرت کدہ ہے جس طرح اہرامِ مصر کی ممیاں فروخت کرنا خلافِ قانون ہے یا ہمارے ملک کا کوئی نادر تاریخی مجسمہ آثارِقدیمہ کے قوانین کے مطابق ریاست یا کسی میوزیم کی ملکیت ہوتا ہے اور اسکی خریدو فروخت قانوناً جرم ہے ایسے ہی میں اپنے عبرت کدے کے مجسموں کو فروخت کرنا اپنے ضمیر کے خلاف سمجھتا ہوں"۔سنا ہے دن بھر ساکت و صامت جامد اور بے حِس و حرکت مجسمے رات کو اپنی بھٹکی ہوئی روح کی چند ساعتوں کی آسودگی کے باعث کہ جو ان میں آ گھستی ہے یہ متحرک و گویا ہو جاتے ہیں۔ غوری صاحب نے خود تو نہیں البتہ انکے ایک دوست نے جو ہمارے بھی شناسا ہیں بتایا کہ ایک رات غوری صاحب دیر تک نقاشی و چوب تراشی کا کام کرتے رہے تھک کر عبرت کدہ کے دروازے کے قریب صوفہ پر نیم دراز ہو گئے۔ یہ ایک زندہ مرد آہن کا مجسمہ تراش رہے تھے جو ابھی نا مکمل تھا۔ اچانک اندر سے کھسر پھسر کی آوازیں سنائی دیں۔ ایک با رُعب قدآور مجسمے نے اپنے فوراً بعد گدی سنبھالنے والے اور مکان کو توڑ کر دو ٹکڑے کر دینے کے بعد عبرت کدے کی زینت بننے والے سے پوچھا یہ کون ہے کہ ابھی ہماری بزمِ مردانِ آہن میں آیا بھی نہیں ہے کہ سب اسے دروازے کے باہر ہی مبارکباد دے رہے ہیں۔ مسئول نے اٹینشن ہو کر کہا سر ! یہ ہماری سر زمین کا آخری مردِ آہن معلوم ہوتا ہے۔ سائل موصوف نے پوچھا اس نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے ۔ مسئول نے پھر اٹینشن ہو کر کہا سر ! اِس نے سر زمینِ مُظلوم پر دو مرتبہ کلہاڑا چلایا ۔ آئین کو اور ترمیمات کے پشتارے میں تمام شریفانہ اطوار کو بند کردیا۔ پارڈن سر آپ سے ڈبل اور میرے جیسا کارنامہ انجام دیا ہے دیر یا سویر یہ ہماری بزمِ مردان آہن میں آنے والا ہے اس نے رنگ برنگی بھیڑوں اور بکریوں کو بھی جو دُم دبا کر ہمارے پیچھےچلتی تھیں قتل کیا اور حبس زدہ باڑے میں قید کر دیا اور حسبِ ضرب المثل باقی ماندہ بھیڑوں کو اپنے پیچھے چلنے کا حکم صادر فرما دیا تھا ابھی بات چیت جاری تھی کہ فنکار کی آنکھ لمحہ بھر کو جھپک کر کُھل گئی ۔ دوست کی اس پُر فریب منظر کشی پر اور حالات حاضرہ کے تناظر میں (یعنی عدالتوں کے اندر کے حالات پر ) چار مصرعے حاضر ہیں۔
؏ امید ہے مقتول کو قاتل سے رحم کی
ہوگا بڑا یہ ظلم وہ کر دے اگر معاف
کل اس نے ان سے مند ِ انصاف کی تھی سلب
پرواں چڑھایا ملک میں تفریق و اختلاف
کہتےہیں بلی بھی اپنے گھر پر شیر ہوتی ہے۔ اگر محاورہ میں ذرا سی تبدیلی کی جائے اور اسکا اطلاق بھیڑ بکریوں پر کیا جائے تو جن بھیڑ بکریوں کا خون یہ مرد آہن چوستا رہا ان مین سے چند اعلٰی نسل کے اصیل بکروں نے اسکی قید سے آزاد ہو کر اپنے گھر (باڑے) پہنچ کر مل جل کر آخری مردِ آہن کو اپنے سینگوں پر اٹھا کر پھینکنے کا عزم کیا ہے۔ گویا اب یہ بھیڑ، بکری اور بکرے اپنے گھر پر شیر ہو گئے ہیں اور خون کا بدلہ خون کی ضرب المثل سچی ہونے والی ہے۔ البتہ خطرہ اگر ہے تو جمہوریت کے نام نہاد نام لیوائوں سے، عدل وا نصاف اور غریب ملکوں کے جھوٹے سر پرستوں اور عالمی بستی کے ظالم ناخدائوں سے ہے کہ جن کی سر پرستی میں یہ ظالم اور غاصب مردان آہن غریبوں کا خوط چوستے رہے ہیں۔
قلم آرٹسٹ غوری کے عبرت کدے میں الجھ گیا حالانکہ لیک ڈسٹرکٹ (کائونٹی) اور کلیو لینڈ (2)شو کا تذکرہ کرنا تھا ۔ تو پہلے شو کا ذکر کرتے ہیں۔ اس مرتبہ اس نمائش کو ایمان ، ہانیہ ، میں ، ایمان کی امی(ایمان اپنی دادی کو امی اور مجھے ابو کہتی ہے)،مما اور چچی دیکھنے گئے۔ یہ نمائش مڈلز برا کے علاقے مارٹن میں ایک پارک، اسٹیوارٹ پارک میں لگی تھی مارٹن کبھی مڈلز برا کے نواح میں ایک گائوں ہوتا تھا جسکے ایک حصے میں کیپٹن جیمز کُک ایک مشہور جہاز راں اور برطانوی نیوی کا ایک کامیاب افسر رہتا تھا۔ جس نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے کئی سفر کئے اور بحری راستوں کے نقشے تیار کئے ۔ ہوائی جزائر کے بھی سفر کئے اسکی جائے پیدائش پارک کے ایک کونے میں تھی جو اب گردشِ زمانہ اور موسموں کی دست برد سے معدوم ہوگئی تھی البتہ وہاں ایک میوزیم بنا دیا گیا ہے۔ ۱۲۰ ایکڑ پر یہ پارک اسٹیوارٹ نے مڈلز برا کائونسل کو ۱۹۲۸؁ ء میں عطیہ کیا تھا اور اسے عام پبلک کی تفریح کے لئے وقف کر دیا تھا ہمارا حال یہ ہے کہ جو پارک بنے بنائے ہیں انہیں مٹا کر زمین ہضم کرلی جاتی ہے۔ شو میں گھو ڑوں کی تازہ دم تندرست مضبوط اور خوشنما بدن اٹھکھلیاں کرتی ہوئی ایک ٹیم ایک بڑے احاطے میں چکر لگا رہی تھی ۔ برابر میں اونٹ اور زرافے کے ربڑ یا غالباً پلاسٹک کے بنے ہوئے درازیٔ قد کا مظاہرہ ہوا کے چلنے سے گردن ہلا ہلا کر کرہے تھے نقل مطابق اصل تھی ۔ شو میں اسکول کے طلبا وطالبات نے جمناسٹک کا مظاہرہ کیا راقم کی معلومات اس میدان میں صفر ہیں بس یہ سمجھ میں آیا کہ یہ قلابازی نظم و ضبط اور تربیت کے ساتھ اچھل کود اور جسم کومختلف زاویوں سے موڑنے کافن ہے جو یہ ٹیم نہایت سبک رفتاری چابک دستی اور پھرتیلے پن سے سر انجام دے رہی تھی چھوٹے لڑکے لڑکیوں کے تو جسم میں معلوم ہوتا تھا کہ ہڈی ہی نہیں ہے۔ البتہ یورپ کے مزاج میں جو رقص و سرود اور طائوس و رباب رچا بسا ہے اسکی جھلک ان ورزشی کھیل کود میں بھی موجود تھی۔ حالانکہ یہ اسکے بغیر بھی اپنی کشش اور افادیت برقرار رکھ سکتے ہیں۔ غالباً اہل ِ مغرب اپنی تقدیر کے آخری مراحل طے کررہے ہیں۔ بقول اقبال 
؏ میں تجھکو بتاتا ہوں میں تقدیر ِ امم کیا ہے۔
شمشیر و سناں اول طائوس و رباب آخر
زراعت اور باغبانی کا ایک مختصر کیمپ تھا علاوہ ازیں ایک ایجوکیشن کا کیمپ بھی مختصر سا تھا ۔یاد آیا کہ ٹیز سائیڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ڈاکٹر مبشر صاحب ایک ملاقات میں فرمارہے تھے کہ برطانیہ میں ۳۵ میڈیکل کالج اور ۱۳ ڈینٹسڑی کی یونیورسٹیا ں ہیں۔ موصوف بتا رہے تھے کہ مڈلز برا کے کپڑے کی صنعت کے اور بعض دیگر کارخانے بند پڑے ہیں، وجہ مزدوری مہنگی ہو گئی لاگت زیادہ آنے لگی مال کے دام بھی بڑھ گئے وہی چیز چائنا سے سستی مل جاتی ہے لہٰذا کارخانے بند ہوگئے۔ایک نہایت چھوٹے سے کیمپ میں سانپوں کی چند اقسام تھیں ایک لڑکی اپنے ننگے بازوئوں پر ایک موٹے سانپ کو لپٹائے ہوئے تھی بچوں اور بڑوں کو اسے چھونے کی ترغیب دلارہی تھی ۔ آستین اس لئے غائب تھیں کہ مار آستین کہیں آستین میں نہ آجائے غالباً انگریزی میں اسنیک آف دی سلیوز (3) کا مہاورہ مستعمل نہیں ہو گاورنہ شیکسپیر کبھی بھی سیزر کی زبان سے یہ نہ کہلواتا "یو ٹو بروٹس تو ٹو"(4)۔ زراعت وباغبانی کا ایک وسیع و عریض کیمپ بھی لگا ہوا تھا۔ جس میں بونسائی(5) اور کیکٹس (6)(زقوم۔ تھوہر) کی کچھ نایاب اقسام دیکھنے کو ملیں۔ دیہی (7)ورثہ کے طور پر دیہی مرغیاں خرگوش بطخ سارس (8) اور بگلے بھی موجود تھے۔ زراعت وباغبانی کے کیمپ میں پھولوں کی اقسام دیکھ کر راقم کو اپنے محبوب شہر شہرِ بے نظیر آباد (نواب شاہ) میں خوجہ گارڈن کی پھولوں کی نمائش اور سائنس فیئر یاد آگئے یہ پروفیشنل اور نان پروفیشنل فلاور لگانے والوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا اور راقم اکثر منصف (جج) ہوا کرتا تھا لیکن یہاں دیارِ غیر اپنا یہ حال ہے ۔ 
؏ پھرتے ہیں میر ؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
رنگ برنگے پھولوں نے حُسن و رعنائی کا وہ دلربا منظر پیدا کیا تھا کہ نظر ہٹانے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ مڈلز برا کی نرسریوںاور پارکوں میں جتنی اقسام کے آکڈ (9) سوسن (للیز ) (10) ،فوکشیا (11) کے شفتا بی گلابی آسمانی جامنی پیلے اور اودے رنگوں کے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے گہرا سرخ گلاب سیاہی مائل تھا جسے کالا گلاب کہا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ زرد سرخ گلابی سفید گلاب اور بے شمار اقسام کے پھول اپنی چمک دمک آپ و تاب اور کشش لاجواب کے ذریعہ نظروں کی راہ سے دل میں اُترتے چلے جاتے تھے۔ انہی پھولوں کی پتیوں کی رعنائی و تابناکی کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔ 
؏ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر 
مرد ِ ناداں پر کلام ِ نرم و نازک بے اثر
لِتھاپس(12) (پتھروں جیسے پودے) کی جتنی اقسام یہاں دیکھیں اسی موسم ِ بہار میں کراچی کے ساحل سمندر پر دیکھیں اور مقابلہ برابر ہی رہا۔ بونسائی کا مجموعہ دو سال قبل فریئر ہال کے لان میں جو دیکھا وہ اب تک کے مظاہروں سب سے لاجواب تھا پائینس ، فائیکس ، فر ، ایلم ، چنار(یہ پہلی بار دیکھا ہے) تھوجا اور جونیپر ڈھائی انچ سے لے کر ڈھائی فٹ کے سائز میں موجود تھے اور بہت ہی عمدہ تھے ۔ اسی طرح کیکٹائی (13) کے بونسائی بھی بہترین تھے ۔ 
بچوں کی دلچسپی کے لئے برقی جھولے ، برقی گھوڑے ، بلند و بالا نیم دائروں میں جھکائو دیتی ہوئی ٹرین اک خوف کا سماع پیدا کرتی ہوئی دوڑتی دیکھی۔بچوں کے شور و پکا ر پر مبنی یہ تماشا بھی ایک عجیب نظارہ تھا جو والدین اور بچوں یا تنہا بچہ اور تنہا والدیا والدہ اس پُر کشش مظاہرہ میں شریک ہو کر یا دیکھ کر ہی لطف اندوز ہو رہے تھے۔صفائی کا نہایت عمدہ اور معقول انتظام تھا اور سیکیورٹی بھی بہترین تھی۔
(1) Wooden statue (2) Cleveland (3) snake of the sleeves (4) you Brootus too (5) Bonsi (6) cactus (7) Rural culture (8) Cranes or king stork (9) orchid (10) lilies (11) Fucshia (12) lithops (13) cacti 

Friday 17 July 2009

منظوم تبصرہ

آج آپ کی تفنن طبع کے لئے تین خبروں پر منظوم تبصرہ ہی کافی ہے۔
۱۔ خبر :- القاعدہ پاکستان میں ہے تو امریکی فوجیں افغانستان میں کیا کر رہی ہیں۔ ہیلری کلنٹن
قطعہ
القاعدہ ہمارے یہاں تو کہیں نہیں
الزام بے ثبوت لگاتی ہیں کیوں جناب
اصلا ً ہمارے جوہری اثاثوں پہ ہے نظر
سرحد عبور کرنے کا ہے یوں تم کو اضطراب
۲۔ خبر :- کراچی میں خون کی ہولی جاری ہے۔
خون کی ہولی
خون کی ہولی ہے جاری شہر ِ قائد میں ہنوز
دندناتے پھر رہے ہیں لے کے قاتل اسلحہ
کاش کوئی روک دے ان ظالموں کے ہاتھ کو
شہر سارا تو نہیں ہے قاتلوں کا ہمنوا
۳۔ خبر:- نوابشاہ میں ایک غریب اختیار حسین اپنی دو بچیوں کو فروخت کرنے پریس کلب لے آیا۔(نوٹ موجودہ گورنمٹ نے ضلع نواب شاہ کا نام تبدیل کر کے بے نظیر شہید رکھ دیا ہے)
لاچار
لو شہر ِ بے نظیر کا لاچار اختیار
دو بچیوں کو لایا ہے بازارِ مصر میں
یہ مفلسی کا مارا غریب اور کیا کرے
فاقوں سے مر رہا ہے وڈیروں کے شہر میں
کاوش ِ فکر پروفیسر سید ارشد جمیل

سکون کا سراب پروفیسر سید ارشد جمیل

میں میرا بیٹا فرخ انکے دوست ڈاکٹر زبیر کل شام مغرب کی نماز پڑھنے جا رہے تھے راستہ میں؛ نہایت شستہ و شائستہ ،اعلٰی تعلیم یافتہ حافظ قرآن شعبہ طب سے وابستہ ڈاکٹر زبیر کہنے لگے ہم جب کراچی میں تھے تو کچھ احباب اہل ِمغرب کا نقشہ کچھ ایسے کھینچتے تھے کہ وہاں لوگ درد و غم کے مارے اپنے اعمال بد کے ہاتھوں شکستہ و درمان بربادی کی راہ پر بگٹٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں۔لیکن میں نے یہا ں آکر دیکھا کہ بڑے سکون کے ساتھ صاف ستھرے ماحول میں پر امن ہر فرد اپنی دنیا میں مگن خوشحال زندگی گزار رہا ہے۔ جو نقشہ ہمارے احباب ِ فکر ہمیں دکھاتے تھے یہاں ہم نے قطعی مختلف پایا ۔ راقم نے عرض کیا کہ بظاہر پر سکون ہیں لیکن طلاقوں کی کثرت ،بچوں کی پرورش کی ذمہ داری پر مناقشہ اور شادی کی ذمہ داری کا جوا اتار پھینکنا وہ مسائل ہیں جو اس معاشرت میں بہت عام ہیں اور ذہنی پریشانی دکھ اور درد کے لئے کافی ہے۔ ڈاکٹر موصوف نے فرمایا کہ وہ (یہاں کے لوگ) اس سے بھی تفریح لیتے ہیں(انجوائے کرتے ہیں)۔ میں نے محسوس کیا کہ یہاں پڑھنے اور یہاں رہنے کے سبب، نیز میڈیا کے اثرات کے باعث اہل برطانیہ کی ظاہری زندگی سے اہل مشرق بہت بے حد متأثر ہیں اور اس تا ٔثر کو ختم کرنےیا کم کرنے لئے راقم کی چند منٹ کی نشست اور گفتگو کا رگر نہیں ہو سکتی، لہٰذا اُس وقت خاموشی اختیا ر کر لی۔
اگر اسلام سے قطع نظر صرف مشرق کے نظریہ حیا ، پاک دامنی اور عفت و عصمت کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بدھ مت ہو کہ ہندو مذہب چین کے مذہب ہوں یا ذردشتی مذہب (پارسی) سب میں ہی ننگا پن، بے حیائی، قانونی یا مذہبی رسم و رواج کے مطابق ازدواجی تعلق کے بغیر میل ملاپ کو نہ صرف نا پسند کیا جاتا بلکہ بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ خود برطانیہ کا یہ حال ہے کہ آج سے تقریباً ایک صدی قبل خواتین ٹخنوں تک لمبی فراک یا آدھے سے زائد پنڈلیوں کو ڈھانپنے والا اسکرٹ (جیسا ہمارے یہا ں بھیل اور تھر کے باشندے گھاگھرہ پہنتے ہیں )پہنتی تھیں۔ یہ ۳۰ یا ۴۰ سال پرانی بات ہے کہ جب منی اسکرٹ کا فیشن چلا تو دانش وروں ، سن رسیدہ سیاستدانوں اور پروفیسروں کی اکثریت نے اسے ناپسند کیا اور اعتراض اُٹھایا راقم نے خود ریڈر ڈائجسٹ میں منی اسکرٹ کے خلاف اور حق میں بحث پڑھی اور آخر کار بڑوں کو چھوٹوں کے آگے ہتھیا ر ڈالتے بھی دیکھا ۔ اور آخر کار صورتحال یہا ں تک پہنچی کہ اب عورتوں کے جسم پر برائے نام لباس قسم کی کوئی چیزباقی رہ گئی ہے اور مرد صرف جانگیے تک آ گئے ہیں۔ یہ سب کچھ انیسویں صدی کے آغاز میں مغربی مفکرین اور دانشوروں کی شخصی آزادی کی اس تحریک کا نتیجہ ہے جس کی رو سے ہر فرد کو اپنی خواہشات لباس تراش خراش وضع قطع اور ازدواجی معاملات میں مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ اس دور میں انسانی اخلاقیات کے بنیادی تصورات کو بھی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا گیا ۔ لہٰذا اس قسم کے سوالات نئی انقلابی سوسائٹی میں اٹھنے لگے کہ نکاح کے بغیر کوئی آدمی کسی سے محبت کر لے تو کیا بگڑ جاتا ہے اور نکاح کے بعد کیا دل آدمی کے سینے سے نکل جاتا ہے کہ اس سے محبت کرنے کا حق چھین لیا جائے ۔ افسانوی اسکول ِ فکر (1) کی ایک فرانسیسی مصنفہ ژورژساں (2)اس گروہ کی لیڈر تھی اس نے تمام اخلاقی اصولوں کو توڑااور ایک شوہر کی بیوی ہوتے ہوئے نکاح کے بندھن کے باوجود بیشتر مردوں سے آزادانہ تعلقات قائم کئے کم از کم چھ آدمی تو ایسے تھے جن سے اعلانیہ اور باقاعدہ آشنائی اور تعلقات تھے ۔ اُ س کے انہی دوستوں میں سے ایک اسکی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے۔ '' ژورژ ساں پہلے ایک پروانے کو پکڑتی ہے اور اپنے پھولوں کے پنجرے میں قید کرتی ہےیہ اسکی محبت کا دور ہوتا ہے پھر وہ اپنے پِن اسے چبھونا شروع کرتی ہےاور اس کے پھڑپھڑانے سے لطف اندوز ہوتی ہےیہ اس کی سرد مہری کا دور ہوتا ہے اور یہ دیر یا سویر یہ دور بھی ضرور آتا ہےکہ پھر وہ اس کے پَر نوچ کر اور اسکا تجربہ کر کے اسے ان پروانوں کے ذخیرہ میں شامل کر لیتی ہے جن سے وہ اپنے ناولوں کے لئے ہیرو کا کام لیا کرتی ہے۔''
اسکے نزدیک محبت اور وفاداری لازم و ملزوم نہیں۔ طرفین کو ایک دوسرے کے ساتھ آزادی اور رواداری سے کام لینا چاہیے۔ ایک ناول میں ایک شوہر اپنی بیوی کو دوسروں کی آغوش میں دیکھ کر یہ خیال ظاہر کرتا ہے جو حقیقتاً ژورژ کے خیا لات ہیں۔ 
'' میں نے اپنی رائے نہیں بدلی میں نے سوسائٹی سے صلح نہیں کی نکاح تمام اجتماعی طریقوں میں وہ انتہائی وحشیانہ طریقہ ہے جسکا تصور کیا جا سکتا ہے آخر کار یہ طریقہ موقوف ہوجائیگا۔'' اور یورپ میں موقوف ہو گیا ہے۔ 
غالباً سو سال پرانی بات ہے کہ ہائوس آف لارڈ کے ایک رکن نے ایک مرتبہ اپنی جواں سال بیٹی کے سامنے اپنی بیوی کا منہ چوم لیا۔ یہ بات چہار دیواری سے نکلی تو ایوان ِ بالا تک جا پہنچی جہاں لارڈ بہادر موصوف کی سخت مذمت کی گئی ۔ جہاں تک امن و امان کا تعلق ہے تو برطانیہ میں بھی نسلی فسادات یا کبھی کبھی مذہبی تصادم (3) رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ شمالی آئر لینڈ کا علاقہ جسکا مرکز بیلفاسٹ (4)ہے اکثر و بیشتر ہنگاموں کی آماجگاہ بنا رہتا ہے۔ نسلی تصادم کے ساتھ ساتھ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کا اختلاف بھی خونریزی کی شکل اختیا ر کر لیتا ہے ۔ آئی ۔ آر ۔ اے (5)کی ماضی کی سرگرمیاں ایشیا یا افریقہ کے کسی بھی فساد زدہ (6)خطے سے کم نہیں رہی ہے۔ حال ہی میں رومانیہ کے مہاجروں پر جو ظلم و ستم شمالی آئر لینڈ میں جو کہ برطانیہ کا حصہ ہے ڈھایا گیا وہ کسی صورت غیر تر قی یافتہ افریقہ کے نسلی فسادات سے کم نہ تھا ۔بہرحال اتنی لمبی بحث ڈاکٹر موصوف سے کرنے کا وقت نہ ملا لہٰذا میں نے یہ خیالات نذر قارئین کردئیے ۔  
تحریر کے اختتام پر حالات کے تناظر میں چار مصرعے پیش خدمت ہیں۔

قطعہ
اعلامیہ میں نام تک کشمیر کا نہ تھا
دونوں کے درمیان ہے جو اصلی مسئلہ
مانا کہ بات چیت کو جنگ پر ہے فوقیت
آخر مذاکرات کی ہو کوئی انتہا

1, Romantic School of Thought
2, George Sand
3, Racial riots or religious confrontation
4, Belfast
5, Irish Republican Army
6, Seat of Turmoil



Saturday 11 July 2009

حُسنِ فطرت کا بے مثال مظہر سنوڈوینا (۳ )پروفیسر سید ارشد جمیل

حُسنِ فطرت کا بے مثال مظہر سنوڈوینا (۳ )پروفیسر سید ارشد جمیل

سنوڈونیا (۱- انگریزی مُترادِفات بلاگ کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں)اغلباً دو الفاظ کا مرکب ہے ایک سنو (۲)یعنی برف اور ڈَون (۳)جس کے معنی پہننے کے یا سر(۴) کے ، گویا برف پوش چوٹی(یہ سارا علاقہ سردیوں میں برف سے ڈھکا ہوتا ہے البتہ یہ چوٹی سردیوں کے اختتام پر موسم گرما کے آغاز میں برف سے ڈھکی ہوتی ہے ہم جون کے آخر میں پہنچے تو برف پگھل چکی تھی ۔ یہ علاقہ نہایت سبز پہاڑوں وادیوں جھیلوں تالابوں اور سبزہ زارمیدانوں پر مشتمل ہے بعض پہاڑ بلندی پر ہر طرف پیلے پیلے پھولوں سے ڈھکے ہوئے تھے حسن کے مشاہدہ کے مطابق پہاڑوں پر سرسوں بوئی ہوئی ہے۔ جبکہ میں نے یہا ں گھروں کے لان میں کثرت سے اُگنے والے خود رو پیلے پھول کے پودوں کو جب قریب سے دیکھا تو دیکھا کہ ریننکیولس (۵)کی ایک قسم ہے ہمارے یہاں نتھیا گلی میں پہاڑوں پر یہ پودا ملتا ہے بالخصوص آبی گذرگاہوں کے کناروں پہ ڈھلانوں کے ساتھ ساتھ وہاں اسے جل دھنیا کہتے ہیں یہ معروف خوردنی دھنیا ہر گز نہیں ہے۔ انگریزی میں اسے بٹر کپ (۶) کہتے ہیں۔ میرا خیال ہے پہاڑی میدانوں میں یہی پودا لگا ہوا ہوگا ۔ قریبی مشاہد ہ کا اتفاق نہیں ہوا۔ اس لئے حسن کے مشاہدہ پر اعتماد کر لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی تحقیق شدہ مشاہدہ نہیں۔ ایک صبح ہلکی ہلکی پھوار میں اپنی قیام گاہ (تال سار نو) سے اسٹیشن کے لئے نکلے ۔ سنوڈونیا پہاڑی ریلوے کے ذریعے اس علاقے کی سب سے اونچی چوٹی کے سفر کے لئے ۔ یہ ریل کراچی میں ماضی میں چلنے والی ٹرام جیسے ڈبے پر مشتمل تھی لیکن انجن وہی قدیم بھاپ سے چلنے والا تھا جس پر ۱۸۸۵؁ کا سن پڑا ہوا تھا اگرچہ بظاہر یہ اسٹیم انجن تھا لیکن اسکے عقب میں ایک جدید ڈیزل انجن نصب تھا۔ کوئیلوں کے ذریعے چلنے والے ایک انجن کو بھی متحرک دیکھا جو ہو بہو بچوں کے کارٹون والے ہینری انجن جیسا تھا۔

سنوڈونیا مائونٹین ریل کا ایک حسین منظر

یہ ہمارے سفر کے بعد روانہ ہوا آدھے گھنٹے کی مسلسل چڑھائی اور 7 (سات )میل کا فاصلہ طے کرکے تقریباً تین ہزارچار سو فٹ کی بلندی پر پہنچے یہاں سے سنوڈونیا پہاڑ کی چوٹی اندازاً سو فٹ بلند ہے جو کوہ پیمائی کے ذریعہ سر کی جاتی ہوگی ۔ لیکن ہماری ریل نے ہمیں وہاں ٹھہرنے اور بلندی و پستی کا نظارہ کرکے لطف اندوز ہونے کے لئے صرف آدھا گھنٹہ دیا۔ پہاڑوں پر سبزہ اتنا گہرا تھا کہ نظر کو دھوکا ہو رہا تھا کہ سبز قالین بچھے ہوئے ہیں۔ اس بلندی کو ہمارے پہاڑوں کی بلندی سے کیا نسبت، کوہ ہندو کش اور کوہ قراقرم اور کوہ ہمالیہ کی بلند چوٹیاں مثلاً کے ٹو ، راکا پوشی ، گیشر برم ، ترچ میر، کن جن چنگا اور کوہِ ایورسٹ جو ۲۰ (بیس) ہزار فٹ سے ۲۹ (انتیس) ہزار فٹ کی بلندی کو چھو رہی ہیں اور دنیا کی بلند ترین چوٹیا ں ہیں۔

چہ نسبت کوہ ِ انگلستاں بہ کوہِ ایشیائی ؏

گوگل کے مطابق برطانیہ کی بلند ترین چوٹی سنوڈونیا ہے جبکہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ما ئونٹ ایوریسٹ ہے جو سنوڈونیا سے آٹھ گنا بلند ہے۔ دنیا میں زمینی بلندی اور پستی ملک یا خطۂ زمین کے باشندوں کی پستی اور بلندی کا مظہر نہیں ہوتی قوموں کی بلندی انکے اخلاق و کردار اور محنت پر مشتمل ہے عظمتِ قومی کے لئے اتفاق و اتحاد عدل و انصاف اور دیگر اقوام کے ساتھ سچا منصفانہ رویہ لازم وملزوم ہیں۔ آج مشرقی اقوام کی اکثریت جو پستی کا شکار ہیں تو غور طلب بات یہ ہے کہ پستی کے اسباب پر تحقیق و تحسس کی جائے اور جو امور اختیار کرنے لازم ہیں انہیں اختیار کیا جائے اور جو اور ترک کرنا ضروری ہیں انہیں قومی سطح پر ترک کرنا چاہیے۔ عملی استحکام اسی ترک و اختیار کا نام ہے جوقوموں کی بقا کا ذریعہ ہے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

مستحکم عمل کی ایک مثال ۲۶ جون کو دیکھنے میں آئی ناسا (۷) اور ایسا (۸)کی ایک مشترکہ کاوش یولیسِس (۹)ایک مصنوعی سیارہ جو آج سے اٹھارہ سال قبل خلاء میں چھوڑا گیا تھا جون کی ایک آخری شام شہابیوں اور قدرتی سیارچوں کی فہرست میں شا مل ہوگیا، جاتے جاتے کچھ نئی باتوں کی اطلاع دیتا گیا ۔ اول یہ کہ سورج کا مقناطیسی میدان نظامِ شمسی میں زیادہ پیچیدہ انداز میں رواں ہے گذشتہ تصورات سے کہیں زیادہ وسیع اور تمام نظام شمسی پر محیط ہے۔ دوم سورج سے خارج ہونے والے ذرات پہلے بلند طول البلد(۱۰) کی طرف چڑھتے ہیں پھر پست طول البلد کی طرف گرتے ہیں اور پھر غیر متوقع طور پر نظام ِ شمسی کے سیاروں کی طرف پھیل جاتے ہیں۔ اسطرح خلا پیمائوں کو مضر ذراتِ خلائی سے زیادہ سابقہ پڑتا ہے۔ یولیسِس (۹)یورپ اور امریکہ کی مشترکہ کاوش اپنے منصوبہ سے چار گنا زیادہ عرصہ تک کارفرما ئی کرتا رہا یعنی ساڑھے چار سال کے بدلے اٹھارہ سال چھ ماہ تک کام کرتا رہا ۔ رچرڈ مر سڈن مصنوعی سیارہ مشن کے سائنسدان اور منیجر کا کہنا ہے کہ یہ استحکام پائیداری اور مضبوطی درا صل بنانے والوں کی مہارت اور لگن اور ہنر مندی نیز مسلسل اسکی خامیوں کی اصلاح کرتے رہنے کی وجہ سے ہے۔ اسے الوداعی سلام (۱۱) کہنے کےلئے اس مشن کی ساری ٹیم ناسا(۷)میں جمع ہوئی تھی۔اللہ تعالٰی نے زمین کے ہر خطے اور ہر علاقے کو اپنے اپنے طرز کا حُسن عطا کیا ہےپہاڑوں کے بر عکس صحرائوں کا حُسن حقیقتاً انکی ہیبت سے زیادہ دلکش ہے۔ دور تک پھیلی ہوئے ریت اسمیں جگہ جگہ صحرائی ٹیلے اور ان ٹیلوں کے دامن میں گھاس اور جھاڑیاں اور پھر کہیں کہیں نخلستان (۱۲)۔ صحرا کی گردن میں حمائل سبزہ و گل ، ہار(۱۳)کا منظر پیش کرتے ہیں۔ الصحرا(۱۴) کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے نخلستان میں کھجور اور کیکر یا مغیل (عربی میں تمر اور اقاقیہ عربی) کے درخت ہجوم در ہجوم بمعہ سبزہ َ زیریں درسایہ ٔ شجر (۱۵)نظر آتے ہیں۔

بقول شاعر انِ ذی وقار ۔۔۔

۱۔؏ شام کے صحرا میں ہو جسے ہجوم نخیل

علامہ اقبالؔ

۲۔ ؏ موجِ صبا نے لوری دے کر کتنے سادہ رو پھولوں کو

خارِ مُغلیاں کی سیجوں پر میٹھی نیند سلا رکھا ہے

سید عابد علی عابد

بات مغیل یا کیکر کی چل نکلی ہے عربی میں اسے اقاقیہ کہتے ہیں اور بائیلوجی کا نام آکیشیا عربیہ(۱۶) ہے اسکے سایہَ میں ننھے منھے پھولوں کے پودے اور مختصر بیلیں تھکے ماندے مسافروں کی مانند پیر پسارے لیٹی ہوئی ہوتی ہیں جسکی طرف عابد ؔ نے اشارہ کیا ہے۔

پھول کی مُسکاں میں پنہاں زندگی کا راز ہے

حسنِ فطرت کی نمائش کا حسیں انداز ہے

۔۔۔۔ ارشدؔ جمیل

اگرچہ یہاں بیشتر مقامات قابل دید تھے لیکن ہم نے واپسی کے سفر کے لئے روانگی سے قبل صرف گرین وڈ فاریسٹ پارک دیکھا جو ایک طرف قدرتی جنگل معلوم ہوتا تھا تو دوسری طرف ایک خوشنما خوبصورت سجی سجائی تفریح گاہ بھی تھی کہ جس میں بچوں ،جوانوں اور ادھیڑ عمر کے لوگوں کے لئے تفریح کا سامان ڈریگن ریل، کشتی رانی ، تیر اندازی، تین پہیوں کی سائیکل کا ٹریک، بچوں کے لئےچھوٹے الیکٹرک ٹرک، پیدل سفر کی پگڈنڈیاں اور بچوں کے لئے سی سا(۱۷)جھولے ۔ پائپ ٹنل ۔ اور طرح طرح کے کھیل کے علاوہ مسخرہ(۱۸)کا تماشا بھی پارک کے بند ہونے تک جاری رہتا ہے۔ اس جنگل نما باغ میں بھی پھولوں اور درختوں پر بائیلوجی کے نام کی تختیاں لگیں تھیں۔ یہاں راقم ،ایمان اور ایمان کی دادی کو دہشتناک ڈریگن ٹرین میں بیٹھنے سے روک دیا گیا اسطرح ہم ایک خوفناک تفریح سے بچکر گھر لوٹ آئے ۔ اور یوں حسین سنوڈونیا کا دلربا سفر اختتام پذیر ہوا۔


۱)Snowdonia
۲)snow
۳) Don
۴)head
۵) Ranunculus
۶) buttercup
۷) (NASA)
۸) (European Space Agency) ESA
۹)Ulysses
۱۰) (Latitude)
۱۱) (Goodbye)
۱۲) (Oasis)
۱۳) (Garland)
۱۴) (Sahara Desert)
۱۵)(Under Arboreal shade vegetation)
۱۶) Accacia Arabia
۱۷)Sea-Saw
۱۸) (Clown)
آپ کی تجاویز اور تبصرہ یقیناً اہم ہیں۔ امید ہے آپ بھی اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ حسن جمیل

Wednesday 1 July 2009

سنو ڈونیا حُسن ِ فطرت کا مظہر۔2 پروفیسر سید ارشد جمیل

سنو ڈونیا حُسن ِ فطرت کا مظہر۔2 پروفیسر سید ارشد جمیل
زندہ قومیں اپنے آثار ِ قدیمہ کی دل و جان سے حفاظت کرتی ہیں۔ برطانیہ میں بھی ان آثار کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایک روز ہم ہارلچ قلعہ دیکھنے گئے لیکن شام وقت زیادہ ہو گیا تھا اندر جانے کا وقت ختم ہو گیا تھا لہٰذا باہر ہی سے دیکھ لیا۔ ہمارے قلعے رہتاس، لاہور کا قلعہ ، رنی کوٹ، حیدر آباد کا قلعہ، کوٹ ڈی جی اور قلعہ ملتان وغیرہ خاصے بڑے بڑے قلعے ہیں۔ یہ ہارلچ قلعہ نسبتاً چھو ٹا ہے پتھروں کا بنا ہوا یہ قلعہ زمانے کے دست برد سے اگرچہ کہیں کہیں سے مخدوش تھا لیکن اپنی مضبوطی کے باعث ہنوز سر اُ ٹھائےکھڑا ہے۔
ہارلیچ کے قلعہ کا ایک منظر
کنوائے کا قلعہ البتہ عظیم الشان ہے اور ایڈورڈ اول کے دور کی ایک شاندار تعمیر ہےجیسے گریٹ بر ٹن [عظیم برطانیہ کی سلطنت] کبھی اتنا عظیم تھا کہ اس میں سورج غروب نہ ہوتا تھا لیکن آج کا یوکے مختصر ہونے کے باوجود اپنی مضبوط و توانا روایات کے قدموں پر کھڑا ہے اگرچہ وہ شان اور وہ آن بان تو باقی نہیں رہی لیکن امریکہ کا سہارا دنیا پر دھاک بٹھانے کے لئے کافی ہے یہ دوسری بات ہے کہ امریکہ کے تھنک ٹینک اسکے سرنگوں ہونے کی اور سرداری کی منتقلی کی نوید سنا رہے ہیں نوم چومسکی کا نام اس ضمن میں خاصا مقبول ہے۔ اس نے اپنی ایک کتاب میں امریکہ کو دنیا کا سب سے بڑا دادا گیر قرار دیا ہے۔ جمی کارٹر اپنی کتاب(۱) *میں رزقم طراز ہیں : امریکا داخلی انتظامی حوالے سے شدید بحران کا شکار ہے (ص ۲۳) 35 زیادہ آمدنی والے ملکوں میں ہونے والے مجمو عی قتلوں میں سے ۱۹ گنا زیادہ امریکہ میں ہوتے ہیں گویا سب سے زیادہ قتل امریکہ میں ہوتے ہیں (ص۲۹) امریکی لڑکیاں فرانسیسی لڑکیوں کے مقابلے میں ۷ گنا زیادہ تعداد میں ایک بچے کی ماں ہیں جبکہ یہ ایک مرتبہ اسقاط حمل کرا چکی ہیں۔ ۷۰ گنا زیادہ لڑکیا ں سوزاک کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی کے ٹین ایجرز (۱۳ تا ۱۹ سال کی عمر، اردو زبان میں ایک سے سو تک گنتی میں صرف گیارہ سے اٹھا رہ تک ''ہ'' ہوز لگتی ہے اگر اسے عمر ہائے ہوز کہا جائے تو نا مناسب نہ ہوگا۔) کے مقابلے میں امریکہ کا ٹین ایجرز (عمر ہائے ہوز ۵ گناہ زیادہ ایڈز کا شکار ہوتے ہیں(ص۸۰) جب امریکیوں سے ہم جنس پرستی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو انکی اکثریت اثبات میں جواب دیتی ہے(ص ۳۰) اب طلاق خطرناک حد تک عام ہو چکی ہے۔ تمام امریکی بالغوں میں سے ۲۵ کو کم از کم ایک مرتبہ طلاق ہو چکی ہے (ص۷۵) ۔ (امریکہ کا اخلاقی بحران: جمی کارٹر: مترجم محمد احسن بٹ دار الشعور لاہور- بحوالہ ترجمان القرآن۔جون ۲۰۰۹) پھر اسکی گرتی ہوئی معیشت وغیرہ سے انکے مفکرین کا یہ اندازہ کہ دنیا کی قیادت امریکہ کے ہاتھ سے جانے والی ہے کچھ غلط بات نہیں لگتی۔ عراق اور افغانستان کی جنگ کے اخراجات سے معیشت پر مزید بوجھ اسکے زوال کو اور قریب لا رہا ہے۔ حال ہی میں ایران میں برطانیہ کی مداخلت سے جو یقیناً امریکہ کی شہ پر ہے امریکہ اور برطانیہ سے دنیا کی نفرت اور بڑھے گی۔ برطانوی سفارت خانے کے ملازم جو کہ ایرانی ہیں وہ آلہ کار کے طور پر میر حسن موسوی کے ساتھ ایک نہایت قلیل شہری گروہ کو احمدی نژاد کے خلاف اکسا رہے ہیں۔ آج ہی یہ خبر بھی بی بی سی نے نشر کی کہ وہ گرفتار ہو گئے ہیں یورپی یونین نے انکی رہائی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ دوسری طرف جمہوریت کے ان ناخدائوں کی زبان سے بھاری اکثریت کے بل پر کامیاب ہونے والے شخص کے بارے میں کوئی کلمہَ استحسان نہ نکلا۔ یہ ناخدا اپنی من پسند جمہوریت یا حکومت کے لئے رطب اللسان ہوتے ہیں۔ خواہ وہاں آمریت یا نام نہاد جمہوریت ہو اندر سے چاہے وہ آمریت ہی کیوں نہ ہوجیسا کہ گزشتہ دور میں پرویز مشرف کی حکومت تھی تو یہ اس پر نہ صرف تحسین و آفرین کے ڈونگرے برساتے ہیں بلکہ دامے درمے سخنے ہر طرح مدد فرماتے ہیں۔ یہ مدد تمام کی تمام بالعموم حکمراں طبقہ اور اعلٰی سرکاری افسران کی دست برد سے نہیں بچتی لہٰذا ایسے ممالک غریب کے غریب رہتے ہیں اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے رہتےہیں۔ ایران چونکہ اسطرح کی عیا رانہ چالوں میں امریکہ اور یورپ کی ناز برداری بلکہ صاف لفظوں میں حکم برداری نہیں کررہا ہے لہٰذا یہ انہیں کسےع گوارہ ہو کہ وہ آزاد خارجہ پالیسی آزاد معیشت اور اپنی معاشرت و سیا ست میں خود مختار ہو کر جیئے۔
معذرت کہ آج تو قلم بہت دور جا نکلا ۔ سنوڈونیا کا تذکرہ جاری ہے۔ ہم کنوائے کیسل کو دور سے دیکھتے ہوئے گزر گئے لیکن اندازہ ہوا کہ خاصا بڑا مضبوط اور پائیدار ہے اور اب بھی ایڈورڈ اول کے زمانے کی شاندار تعمیر کا نمونہ ہے۔ سنوڈونیا میں ایک باغ بوڈنینٹ قابل دید جگہ ہے۔ اَسّی ایکڑ کے رقبے پر لگا ہوا یہ باغ انسانی کاوش اور حسنِ فطرت کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ داخل ہوتے ہی ہم دورویہ درختوں سے بنی ہوئی ایک محراب سےگزرے اس میں سروں پر اصلی لیبرنم کے پھول لٹکتی ہوئی شاخوں سے محراب بنا رہے تھے اس محراب سے گزرے اس میں صرف اور صرف پیلے پیلے پھول ہی پھول نظر آتے ہیں۔


راقم، حسن جمیل ایمان جمیل اور فرخ جمیل پس منطر میں لیبر نیم کے پھولوں کی محراب
باغ میں گھاس کے قطعات اطالوی طرز کی روشیں قطعات کے کناروں پر کیاریاں خوبصورت تالاب میں حسین کنول کے پھول۔ شاہ بلوط، سرو، صنوبر، فر، چیری ، ڈیفوڈل ، کمیلیا ، مگنولیا (چمپا کی ایک قسم) رھوڈو ڈینڈران، ایزیلیا اور گلاب کے قطعات نہایت سلیقہ سے لگائے گئے ہیں۔ انکے علاوہ بے شمار اقسام کے پودے انکے نباتاتی ناموں کی تختی کے ساتھ لگے ہوئے تھے راقم نے کیو گارڈن ابھی تک نہیں دیکھا اسکے بارے میں پڑھا اور رسائل میں تصاویر دیکھی ہیں مجھے وہی منظر محسوس ہو رہا تھا سوائے ان گرین ہائو سز کے کہ جو کیو*(۲) کے رائل باٹنیکل گارڈن میں مختلف آب و ہوا پیدا کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ اس باغ کے درمیان سے ایک پہاڑ ی ندی گزر رہی ہے۔

کنول کے پھولوں کا تالاب بوڈنینٹ باغ

جو ایک ہلکے سے آبشار کو جنم دیتی ہے۔ اس باغ میں پکنک ممنوع ہے۔ نیز شراب و سگرٹ نوشی پر بھی پابندی ہے۔ ہمارے ملک میں اگر باغ میں یہ کتبہ آویزاں ہو کہ یہاں کھانا پینا ممنوع ہے تو آپ دیکھتے ہوںگے کہ عین کتبہ کے نیچے لوگ بیٹھ کر کھا پی کر چھلکے اور خالی ڈبے وہیں پھینک کر چلے جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مغربی اقوام نے کچھ قواعد اور روایات مقرر کی ہیں وہ ان پر نہایت سختی سے عمل کرتے ہیں ہم ان کی ان تمام باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور امریکہ و یورپ کے دورے سے یا تعلیم حاصل کرکے اس اعتبار سے خالی لوٹتے ہیں۔ (سنوڈونیا کا تذکرہ جاری ہے)۔



*(۱) Our Endangered Values: America's Moral Crisis
*(۲) Kew