Saturday 29 October 2011

عزل----پروفیسر سید ارشد جمیل

درد کے خستہ دریچوں سے دل ماضی کے بیاباں میں اترا
ہجر کی ہر شب لمحہ لمحہ جان کنی میں ڈ ھلتی رہی
آج قویٰ شکنی ہے زیادہ امید کا دامن چھوٹ نہ جاۓ
تپتے ہوے صحرا پر برسوں روح جھلستی چلتی رہی
ہم نے سنا تھا دیدہ وروں نور کی اک ننہی سی کرن
گود میں شب کی خاموشی سوتی رہی اور پلتی رہی
جذبہ اہل جنوں کا بڑھ کرسیل بلا جب بن نہ سکا
رنگت قصر ستم کی خوں سے خوب نکھر کے بد لتی رہی
ار شد ان محلوں کے اک دن بپ جیب و داماں انساں
مالک ہونگے ان کےدلوں میں خواہش خوب مچلتی رہی

غزل

''ہر اک سے حال دل کا مد ت کہا زباں سے،، ممکن نہیں علاج غم پیر اور جواں سے
مجروح سب ہوےِ ہیں ہوں بادہ کش کہ ناصح۔۔ معصوم دہن و لب میں پوشیدہ اک زباں سے
غمگین ہو رہے ہیں بد حال ہو رہے ہیں پر کار اور سادہ دلکش حسیں بیاں سے
ہیں کشتگان رہبر یا کشتگان رہزن۔۔۔ آہوں کا اک دھواں سا اٹھتا ہے کارواں سے
ہر شاخ پر بنایا گلشن میں آشیانہ۔۔ محروم پھر بھی ہیں ہم گلشن میں آشیاں سے
اس خاک پر جگرکا چھڑکا ہے لوہو برسوں۔۔ کم ہو نہ پاےء لیکن یہ خار گلستاں سے
ہے میر کے سخن کا انداز ہی نرالا ۔۔ ارشد جمیل اسکو جانو عزیز جاں سے
پروفیسر سید ارشد جمیل

موقف اپنا مثالی---پروفیسر سید ارشد جمیل

جتنی جان لڑا سکتے تھے اتنی جان لڑالی
آ نہ سکا ہے بس میں انکے وزیر ستان شمالی
اپنی ہار چھپانےکو ہی اس نے لگائے ہیں الزام
وہ کہتا ہے واشنگٹن کو ہوئی ہے جیت مثالی
کیا دنیا کی آنکھوں میں جھونکے گا ایسے دھول
اس پہ یقین کرینگے اس کے چند ہالی موالی
ہم کہتے تھے یہ جنگ اپنے ہی لوگوں کے ہے خلاف
اپنوں نے اپنوں کو رگیدا گھر میں آگ لگا لی
اس دنیا کے حاکم کو ہو کیسے شکست گوارا
کیونکر گیت نہ گائیں اسکے بے تو قیر سوالی
اب تو کیانی نے بھی کل شوریٰ میں اعلان کیا
جنگ نہیں اب ہوگی وہاں پر ہم نے توپ ہٹالی
ہر گوشے سے اہل وطن نے ارشد کر دی ہے توثیق
وہ آئیں تو صا ف سنا دیں موقف اپنا مثالی

نجات

خدا رخصت کرے ان بے بصیرت حکمرانوں کو
اٹھا طاقت بنا کر ان کے آگے نو جوانوں کو
نحوست جلد گلشن سے یہ ٹل جا ےء خداوندا
بچا لے دشمنان دیں سے امت کے خزانوں کو
نہیں ہے حوصلہ انمیں کہ ٹکراءیں یہ باطل سے
بچیں گے نا خدا بزدل کہاں تک تیغ قاتل سے
سفینہ زد میں طوفا نوں کی ہے اور ناخدا غاءیب
کیا کرتے ہیں نظارہ تماشہ بین سا حل سے
مرے گلشن کو شیطانوں کے آقا نے لیا زد پر
وہ کرنا چاہتاہے ختم پاکستان کا جوہر
صفوں میں افسروں کی حیف دشمن دیں کے پنہاں ہیں
کیا جائے گا دوہرا آپریشن اندر اور باہر
پروفیسر سید ارشد جمیل

Thursday 29 September 2011

گزرا موسم بہا ر کا اجڑا ۔۔

گزرا موسم بہا ر کا اجڑا ۔۔

نہ کھلے پھول ان مہینوں میں٭
اب وہ آراءيش جمال کہاں۔

گل کہاں زہف خوشہ چینوںیں
بستیاں مٹ گئ ہیں بارش سے۔۔
کھیت باقی نہیں زمینوں میں
ہمت زیست اب کہاں باقی۔۔

سبزکشور کے ان مکینوں میں
سرچھپانےکو گھر کہاں قاءیم
۔۔ نہیں رعنائ آب گینوں میں
بھوک دن بھر گھلاۓ جسم وجاں
۔۔ تابنا کی نہیں جبینوں میں
حشر سامان سیل باراں سے ۔۔
غم بڑھا اور الم رہینوں میں

پروفیسر سید ارشد جمیل
٭فیض کا مصرعہ - پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں- بہ
ادنی' تصرف

Tuesday 13 September 2011

بی بی سی اردو نیوز پر لبرلزم کی معدومی

بی بی سی اردو نیوز پر لبرلزم کی معدومی
صمد اور ماروی کہتے ہیں پیپلز پارٹی کا اور جناح کا
در مذہب پہ گھٹنے ٹیکنا بزدل روایت ہے
ہے بس یہ چند لوگوں کی ہی فکر نا رسا ارشد
کروڑوں کی دل آزاری یہ کیا لبرل سیاسات ہے؟

پروفیسر سید ارشد جمیل

Friday 19 August 2011

انگلینڈ میں نشاطِ جاں کی یاد



Friday 1 July 2011

نعت ِرسولؐ مقبول پروفیسر سید ارشد ؔ جمیل

نعت ِرسولؐ مقبول
پروفیسر سید ارشد ؔ جمیل
خدایا کوچۂ بطحا میں کر خامہ کو زندہ
بڑی مشکل سے پہنچا یہ مدینے میں فرادہ
یہ خواہش ہے تنِ مردہ میں ایماں کی پڑے جاں
الٰہی ہو عطا مثلِ بو صیری مجھکو ---- بُردہ
میں کھینچوں رحمتِ عالم ؐ کے اُسوہ کا سراپا
لکھوں میں سرورِ عالم کے اوصاف ِ حمیدہ
ملے انسانیت کو دینِ حق سے راحتِ جاں
سرُورِ صبحِ روشن ہے مدینے سے ہویدا
مدینے سے ملے شہراہ جنت اہل دیں کو
چلانا اس پہ دنیا کو ہے امت کا فریضہ
مسلماں کے لئے آقا کا اسوہ رہنما ہو
جِلا ایماں کو مل جائے سکوں سے پُر ہو سینہ
ہےگلیوں میں مدینے کی بسی زلفوں کی خوشبو
چلو تم لے کے ارشد ؔعطر کا اعلٰی خزینہ

Monday 30 May 2011

خزینہء نبوت

View MyPage !



Follow my Articles
خزینہ نبوت
(Ata Muhammed Tabussum, karachi)

خزینہ نبوت حضور اکرم ﷺ کی احادیث کا مختصر مجموعہ ہے۔ جس میں احادیث کی منظوم ترجمانی کی گئی ہے۔ ربیع الاول کے ماہ مبارک کی مناسبت سے یہ بہت متبرک تحفہ ہے۔ جو اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔احادیث کی منظوم ترجمانی پروفیسر سید ارشد جمیل نے کی ہے۔پروفیسر سید ارشد جمیل تدریس و تعلیم کے شعبہ سے متعلق ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ،،محسن انسانیت کے اقوال و افکار کو سخن وری کا موضوع بنانا مجھ جیسے سائنس کے استاد کے لئے خاصا مشکل کام تھا جو بہرحال اللہ کے کرم سے ہوگیا۔ ارشد جمیل صاحب نے جو مختصر احادیث منتخب کی ہیں۔ وہ حافظ فضل الرحمنشاہ صاحب نقشبندی مجددی کی کتاب،، جواہر نبوت،، سے لی گئی ہیں۔ پروفیسر عنایت علی خان نے اس منظوم ترجمانی پر نظر ثانی کی ہے۔ کتاب عمدہ گیٹ اپ اور خوبصورت سرورق کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ (بخاری) اس کو اس طرح شعری پیکر میں ڈھالا ہے۔ اعمال کا مدار ہے نیت کا التزام۔ نیت میں ہو فتور تو اعمال سب حرام یا پھر یہ حدیث تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ہے۔ اس کو شعر میں یوں بیاں کیا گیا ہے۔ تم میں سے بہترین ہے جو انسان خلیق ہو۔ جو اپنے اہل خانہ پر نرم وشفیق ہو، میانہ روی سب سے بہتر ہے(بہیقی) کو انھوں نے یوں شعر میں بیان کیا ہے فرمان مصطفٰے صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم یہ بڑا دلنشین ہے۔اوسط عمل طریق عمل بہترین ہے۔ کتاب کی قیمت سو روپے ہے۔ یہ کتاب نوجوانوں اور شعری ذوق رکھنے والوں کے لئے ایک بہترین تحفہ ہے۔ کتاب ڈی ۔35 بلاک 5 فیڈرل بی ایریا سے منگوائی جاسکتی ہے۔


http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=11627&type=text

_____________________________________________________________________

سرورق > اداریہ

اداریہ


2011-01-30

کتب و رسائل

کتب و رسائل نعیم صدیقی
کتاب : خزینہ نبوت(احادیث کی منظوم ترجمانی)
شاعر : پروفیسر سید ارشد جمیل صفحات : ۰۱۱ قیمت:۰۰۱ روپی ناشر : ادارہ ¿ معارف اسلامی، ڈی۔۵۳، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ زیر نظر کتاب پروفیسر سید ارشد جمیل صاحب کی ایک ایسی شعری کوشش ہے جس کی جس قدر بھی تحسین کی جائے کم ہے۔ اس کتاب میں ۰۱۳ احادیث کی منظوم ترجمانی کی گئی ہے۔ ہم اس تعارفی تبصرے میں اپنی کسی رائے کے بجائے خود پر پروفیسر سید ارشد جمیل صاحب کا اس کتاب کے بارے میں بیان جو انہوں نے ”حکایت دل“ کے عنوان سے کتاب کی ابتدا میں شائع کیا ہے اس کا ایک اقتباس درج کریں گے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے افکار و اقوال کو سخن وری کا موضوع بنانا مجھ جیسے سائنس کے استاد کے لیے خاصا مشکل کام تھا جو بہرحال اللہ کے کرم سے ہوگیا۔ مشکل آسان اس لیے ہوگئی کہ احادیث کے انتخاب کے سلسلے میں میری نظر حافظ فضل الرحمن شاہ صاحب نقشبندی مجددیؒ خلف الرشید حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ نقشبندی مجددیؒ کی کتاب ”جواہر نبوت“ پر موصوف کی اجازت سے فکر سخن کا آغاز ہوا۔ برادر نسبتی حافظ فضل الرحمن صاحب نے ازراہ کرم اجازت مرحمت فرمائی جس کے لیے ان کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ جب کام مکمل ہوگیا تو ازراہ عنایت جناب پروفیسر عنایت علی خان صاحب نے اس کتاب کا ایک ایک لفظ پڑھ کر مناسب مشوروں سے نوازا جس کے لیے ان کے حق میں دعاگو ہوں اور تہہ دل سے ممنون ہوں۔ یہ منظوم احادیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ترجمہ کی صورت میں نہیں بلکہ ترجمانی کی شکل میں ہیں۔ کہیں شعری ضرورت کے تحت مناسب و مماثل مفہوم کا مصرعہ اضافہ ہے۔ اگرچہ یہ بھی کوشش کی گئی ہے کہ فکر الہامی سے ہٹا ہوا نہ ہو اور منشائے رسالت مآب سے بہت قریب ہو۔ یہ سب کچھ اللہ کے حضور پیشی کے وقت رحم و کرم کی نظر اور ندامت سے بچنے کی ادنیٰ سی کوشش ہے“۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ”کتاب کی طباعت کے سلسلے میں جناب سید شاہد ہاشمی صاحب اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی سے اشاعت قبول فرما کر مجھے ایک عظیم ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کا موقع عنایت کیا۔ میں موضوف کا بے حد ممنون ہوں“۔ کتاب پیپر بیک پر رنگین سرورق کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔ ........٭٭٭........
http://www.jasarat.com/graphic/smag_detail.php?smagdate=30-01-2011&newsid=17.gif

Saturday 28 May 2011

تضمین بر غزل حضرت اعجاز مالوی

حافظ حبیب الرحمٰن یوسفی[نوابشاہ]
زیست کو محرومِ عشرت کر دیا ہر نفس کو وقفِ کلفت کر دیا
اہتما مِ ضبطِ فرصت کر دیا جب سے دل وقفِ محبت کر دیا
راحتوں کو گھر سے رخصت کر دیا
چھاگئی دنیا میں ہر سو تیرگی وقت کی رفتار جیسے رُک گئی
ذرہ ذرہ سے صدا آنے لگی قتل ہو بے وجہ مجھ سا آدمی
تونے خونِ آ دمیت کر دیا
مضحکہ خیزی کا عالم الحذر ورطہ حیرت میں ڈوبی ہر نظر
دل شکستہ چشم نم چھلنی جگر میرے رونے پر ہنسے ہیں اسقدر
دو گھڑی رونا مُصیبت کر دیا
پہلے تو ایسا نہ تھا تیرا مزاج سب دلو ں پر تھا فقط تیرا ہی راج
کیا تجھے گہنا گیا ظالم سما ج تیرے عذرِ پاک دامانی نے آج
عشق کو ہی بے ضرورت کر دیا
بارہا سب نے سُنا اس ساز کو کوئی پہچانا نہ اِس آواز کو
ہم نے حافظ پالیا اِس راز کو عاشقی نے کم سے کم اعجاز کو
خوگرِ رنج و مصیبت کر دیا

Friday 27 May 2011

غزل

پروفیسر سید ارشد جمیل
قطرہ نہ ایک خون کا آنکھوں سے کل بہا
یہ ہے زوالِ غیرت و عزت کی انتہا
پروانہ طوفِ شمع کے دوران جل گیا
کیا ذوقِ وصلِ نور کبھی کم بھی ہوسکا
اک شخص جس کے ابرو و رخسار نے مجھے
دائم سکوں بذریعۂ درسِ فنا دیا
میں دل ہی دل میں اس کی تمنا کا معترف
اس نے طبل پہ اعدا سے اعلانِ جنگ کیا
چالیں تمام شیریں کے حق میں نہیں گئیں
فرہاد کی فتح ہے یا خسرو کا دبدبہ
اک قیس نے محبتِ لیلیٰ میں جان دی
جذبہ وہی ہے آج بھی محفل میں کل جو تھا
مجھ کو یقیں ہے آئے گا فرہاد بام پر
گویا کرے گا کوہکن پھر کل سے ابتدا
چلتی رہے گی رزمِ جنوں شاہ سے جمیلؔ
پاتے رہیں گے قیس ہزاروں یہاں سزا

Saturday 26 March 2011

نجم الدین اربکان سابق وزیر اعظم ترکی کی یاد میں لکھی گئی نظم۔