Tuesday 9 November 2010

نفاذ ِ اردو ایک خواب پروفیسر سید ارشد جمیل

تسلیم کر لیں کاش ہم اردو کی احتیاج

آئے ستارہ اپنا بھی بالائے بام آج

صوبوں کے درمیان ہے اردو سے رابطہ

حکام میں نہیں مگر اردو کا تذکرہ

اکثر غریب عوام نے اپنا یا ہے اِسے

حکام ِ با وقار نے ٹھکرایا ہے جسے

اردو چمن میں اپنے ہے نخچیر اور صید

آزاد مملکت میں ہے قومی زبان کی قید

قومی زباں بے حیثیت ہے ہر مقام پر

دفتر ہوں حاکموں کے یا منصف کے بام و در

بازار میں گھر وں میں دفاتر میں ہر جگہ

کم ہوگا نام تختی پہ اردو میں ترجمہ

آزاد ہو گئے ہیں مگر ہیں ابھی غلام

گردن میں اسپِ شرق کے ہے غرب کی لگام

اردو زباں کے صدیوں سے ہیں دشمنِ حیات

افرنگی و ہنودی و ابلیسی طلسمات

اللہ کرے کہ اب تو ہو احساس یہ ہمیں

افکار کی غلامی سے اب جلد ہم بچیں

دانش کدوں کے اردو سے گر پُر ایاغ ہوں

پھر مستفید قوم کے اعلٰی دماغ ہوں

نکتہ یہ ہم پہ کاش اب ہوجائے آشکار

قومی زباں کے ذریعہ ہے ملت کا اعتبار

تحقیق کی بساط کے شاطر نہیں ہیں کیوں

صدیوں سے عقل و ہوش پہ چھا یا جو ہے فسوں

اربابِ حل و عقد سے بیگانے ہیں عوام

جنکی زبا ں ہے اجنبی اور اجنبی نظام

اک بُعد ِ شرق و غرب ہے دونوں کے درمیاں

حائل ہے درمیان میں افرنگ کی زباں

حاکم کبھی سمجھ نہ سکے بے کسوں کی بات

آفات سے ملی نہ اِنہیں آج تک نجات

تبدیل رہنمائوں کا ہو طرزِ اقتدار

مبنی خلوص پر ہو سیاست کا ہر شعار

قومی زباں کا مرتبہ ایواں میں ہو بحال

تاکہ ہو جلد خاتمۂ نکبت و زوال

ہو تیشہ زن کی زد میں غلامی کا ہر زجاج

کٹ جائے طوقِ گردنِ اردو ہے یہ علاج

ارشد افق سے پھوٹے کوئی نور کی کرن

اللہ کرے ہو روشن اسی نو ر سے چمن

Thursday 21 October 2010

قطعہ

قطعہ

حاکم کو نظر کیوں نہیں آتا وہ یہیں ہے

قاتل میرا اس شہر سے باہر کا نہیں ہے

سفاک ہے جلاد ہے بے رحم ہے قاتل

ظا ہر میں بڑا پارسا اور خندہ جبیں ہے۔

پروفیسر سید ارشد جمیل

Friday 4 June 2010

فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی دہشت گردی—پروفیسر سید ارشدجمیل

عالمی طاقت کے بل بوتے پر اسرائیل نے

کردیا حملہ رضاکاروں کے اک سرخیل پر

مار ڈالے چند انساں بے خطا و بے قصور

کیا غضب ہوتا فلوٹیلا غزہ جاتا اگر

ظلم و دہشت فطرتِ صہونیت کا ہے خمیر

اس کی دہشت سے نہیں محفوظ کوئی بحر و بر

کارواں اطفا لِ محصوریں کو دیتا کچھ دوائیں

امن و آزادی کا تھا بے لوث وہ پیغامبر

اہلِ غزہ پر ہے بندش ہر ضروری چیز کی

جانے دیتا کیسے ہمدردوں کو مظلوموں کے گھر

آج اسرائیل نے کی ہے ستم کی انتہا

کل یہ خود کھائے گا ہر اک ظلم کا کڑوا ثمر

کب تلک زندہ رہے لے پالکوں کے سر پرست

آخر اک دن بے اماں اور ہوگا رُسوا در بدر

امن و آزادی کی کشتی میں شامل تھے جمیل

میرے پیارے نوجواں و دل رُبا لختِ جگر