Friday 30 October 2009

کہیں روٹی کی قلت اورکہیں کاسمیٹکس کی کثرت۔ پروفیسر سید ارشد جمیل

تین سال قبل جب بلاد مغرب کو پہلی دفعہ دیکھنے کا اتفاق ہوا اس وقت بھی میر ی یہی رائے تھی کہ بے تحا شا سامان تعیش بازاروں میں بھر ا ہوا ہے ہر دکان انواع و اقسام کے قابل فروخت یا نا قابل فروخت مال سے بھری ہوئی ہے ۔ بلکہ ناقابل فروخت مال اشتہاری مہم کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے یہاں زندگی آسائشوں کا جھمیلہ ہے میک اپ سے متعلق کھانے پینے باورچی خانے غسل خانے اور باغیچہ سے متعلق ، ڈرائینگ روم سے متعلق بچوں کے کھلونوں ، لباس اور کاسمیٹکش سے متعلق الغرض زندگی یہاں جتنی ہمہ گیر اور کثیر پہلوہے اسی تعلق سے بازار اشیاء صرف ( اکثر اشیاء بلا ضرورت ) سے بھرے پڑے ہیں۔ کھانے کے اسٹوروں میں اشیاء خورد و نوش کا جو تکاثر ہے وہ اور دوسرے بازاروں میں مال اور خریداروں کی کثرت دیکھ کر سورۃ التکاثر کا حقیقی نقشہ نظر آتا ہے۔ سڑکوں پر ایک سے ایک قیمتی گاڑی فراٹے بھر رہی ہے افراد کی خاصی تعداد خوشحالی کے باعث موٹاپے(اوبیسیٹی)* کی طرف مائل ہے۔ جنکی چالیس فیصد تعداد موٹاپے کی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے یورپی ماہرین کی رائے کے مطابق اہل برطانیہ سب سے زیادہ فضول خرچ ہوتے جا رہے ہیں۔ اور اوبیسیٹی میں بھی یورپ کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑا ہوا ہے۔ آج سہ پہر جب سب اہل خانہ بازار گئے تو میں نے ایک کتا ب پڑھنے کے لئے ریک سے نکالی لیکن کتاب کھولنے سے قبل ہی چشم ِ باطن کے در وا ہوئے اور نبی ٔ مہربان کا اک فرمان نگاہوں کے سامنے سے لبادۂ شعر پہن کر جلوہ ٔ فرما ہوا۔
؏ سب سے برے مقام ہیں بازار شہر میں
ہیں ربِّ ذوالجلال کے غصہ کی لہر میں
حدیث کے الفاظ مِن و عن شعر کے سانچے میں اتارنا گرچہ ناممکن نہیں لیکن انتہائی مشکل ترین کام ہے اور یہی وجہ ہے کہ اضافی الفاظ کے استعمال سے ابلاغ بشکلِ ترجمانی شعر کی صورت میں ڈھتا ہے راقم اس سنگلا خ وادی سے گذرا ہے اور ۳۱۳ احادیث کو منظوم ترجمانی کی صورت میں ڈھال چکا ہے جو انشاء اللہ عنقریب کتابی شکل میں چھپ کر منظر عام پر آ جائیگی ۔
امداد اور کیری لوگر بل کے حوالے سے ایک قطعہ نیز بحران اور مہنگائی پر دو قطعات ملاحظہ ہوں۔
کیری لوگر بل
کیری لوگر بل ہے بربادی کا اک ساماں نیا
اب بلوچستان میں دریا بہے گا خون کا
کالے پانی اور را کے چالباز وساز باز
گردنیں اڑوائیں گے ہر شہر میں اب جا بجا
بحران
کہیں بم کے دھماکے ہیں کہیں بحران بجلی کا
کہیں آٹے نے کچلا ہے کہیں بحران چینی کا
یہاں ہے کال ہر شے کی نہیں قلت وزیروں کی
ہے لیڈر وہ مزے میں جو مقرب ہے پی او پی کا
پی او پی (پریذیڈنٹ آف پاکستان)

بچوں کی فروخت
پہلے کھا لیتے تھے وہ روکھی ہی روٹی پیاز سے
روٹی غائب ہوگئی اور پیاز نے پکڑا جہاز
کیا وہ بچوں کو کھلائیں گھاس پتے خاک دھول
بیچنے بچوں کو چل نکلے مجیدن اور نیاز
*Obesity

Tuesday 20 October 2009

میں اقبال اور پیرِ رومی پروفیسر سید ارشد جمیل

o اقبال تجھ سے معذرت کرتا ہوں پیشگی
کر دیں معاف بات کسی کو بُری لگی
برعکس فکر و دا نشِ حاضر سدا رہا
رجعت پسند دشمن ِ افکارِ ارتقا
تعلیم پیر ِ روم سے دہشت کی لے کے وہ
کہتا تھا مطلب دین کا ہے جنگ اور شکوہ
کیا مصلحت ہے دین کی سمجھا ئیے ذرا؟
اقبال نے سوال پیرِ روم سے کیا
جواب:-مصلحت در دینِ عیسٰی غار و کوہ
مصلحت در دینِ ما جنگ و شکوہ
o مغرب کے سخت خلاف ہے اقبال کا پیام
کہتا ہے اس کو عظمت ِ ابلیس کا نظام
نااہل عصر ِ نو کے ہیں یہ فلسفی تمام
سقراط روسو سارتر اور ڈارون بنام
ہیں کارل مارکس گو ئٹے فرائیڈ ابوجہل
دینِ ابولہب پر کرتے ہیں سب عمل
سنیئے حوالہ گفتۂ اقبال کا ذرا
موصوف نے کہا ہے یہ موصوف نے لکھا
بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بو لہبیست
یعنی کہ مصطفٰی سے ہے وابستگی ہی دیں
گر یہ نہیں تو ظلم سے بھر جائے گی زمیں
گمرہ ہیں فلسفی وہ ابو لہب کی طرح
جن کا نبی کریم سے کچھ واسطہ نہیں
o مغرب سے تھا اُسے تو خدا واسطے کا بیر
کہتا تھا کلچر انکا بہت جلد ہو گا ڈھیر
اسکا حوالہ اردو کا یہ شعر بھی سُنیں
پھر اسکے عقل و ہوش پر اپنا بھی سر دھنیں
اقبال: تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا
o کیسی بلا تھا چاٹ گیا یورپی علوم
کہتا تھا کچھ نہیں ہے یہ الفاظ کا ہجوم
اک روز اپنے پیر سے پوچھا کہ اے جناب
روشن ضمیر آپ ہیں اور عالم ِ کتاب
اقبال: پڑھ لئے میں علوم ِ شرق و غرب
روح میں اب تک ہے باقی درد و کرب
جواب ِ مرشد : دست ِ ہر نا اہل بیمارت کُند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کُند
یعنی: ہر نا اہل طبیب سے درد اور بھی بڑھا
نسخہ تو تیرے پاس تھا محروم کیوں رہا
ہر درد کا علاج عملِ اسوۂ حضور ؐ
آ میرے پاس میں کرونگا کرب تیرا دور
o اقبال کے دماغ میں ماضی کا تھا فتور
روشن خیال حال کا اسکو نہ تھا سرور
تہذیب ِ نو تو اسکی نظر میں فریب ہے
ملت کو دے رہا ہے عجب طرح کا شعور

اقبال : نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صنا عی مگر جھوٹے نگو ں کی ریزہ کاری ہے
o کہتا تھا یہ معاش کا چکر ہے اک فساد
کیا جانے اسنے دیکھے نہیں یورپی بلاد
اقبال: دورِ حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکرِ معاش
o کہتا ہے دل سے آدمی کہ نورِ حق گیا
یہ ہے یہودی فکر کا ہی سب کیا دھرا
اقبال : ایں بنوک ، ایں فکرِ چالاک ِ یہود
نور ِ حق از سینۂ آدم ربود
یعنی کہ بینک اور یہ چالاکی ٔ یہود
سینے میں نور ِ حق کا نہیں چھوڑتے وجود
o جمہوریت کے بارے میں فکرِ عجیب تھی
کیونکر ہو دو سو خر مغز سے فکرِ آدمی
اقبال: گریز از طرز ِ جمہوری غلام ِ پختہ کار ے شو
کہ از مغزِ دود صد خر فکر انسانی نمی آید
o کیوں کہ گیا وہ صاحب ِ ادراک و بصیر ت
شاید اسے پسند نہ تھی صنعت و حرفت
اقبال : احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
o جمہوریت کو کہتا ہے وہ مغرب کی غلامی
گنتی سے یہ کمزوروں کی بنتی ہے عوامی
اقبال: جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
o باتیں عجیب فلسفہ اقبال کا عجیب
رومی کا وہ مرید قلندر وہ حبیب
کہتے ہیں اسکو اہل جنوں آج بھی طبیب
ماضی پسند مسلک ٔ دہشت کا وہ نقیب
ذکرِ رجوعِ عظمتِ رفتہ سُنیں ذرا
آثار ِ قُرطبہ پہ کھڑے ہو کے یوں کہا
اقبال : آبِ روان ِ کبیر* تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا کسی اور زمانے کا خواب
گویا زمانہ لوٹ کے آئےگا پھر وہاں
تہذیبِ مصطفٰی ؐ کا چلن عام تھا جہاں
*اسپین کا ایک دریا

o ملت کو سمجھتا ہے وہ بھٹکا ہو ا آہو
کہتا ہے یہ رب سے میری سُنتا ہے فقط تو
محروم ِ تمنّا ہے دل ِ مردۂ مو من
مسلم کا بہے جادۂ اسلام پہ لو ہو
اقبال: یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت ِ صحرا دے
o کہتا ہے کہ تعلیم سے ملحد ہوئے ناداں
تعلیم کے اثرات سے شاعر ہے پریشاں

اقبال: ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

o ہے علم کا مقصد بھی عجیب اُس کی نظر میں
وہ علم نہیں جس نہ عرفاں ہو بشر میں
ہے یورپ و امریکہ کی تعلیم و تصنع
نفسانی ترقی ہے یہ شیطاں کے اثر میں
ہے فکر یہ اقبال کی رومی کے سحر میں
رومی : علم را برتن زنی مارِ بود
علم را بردل زنی یار ِ بود
کیوں کا م لیا علم سے تعمیر ِ بدن کا
لپٹا ہے تبھی سانپ تجھے چوڑے سے پھن کا
گر قلب کو تعلیم سے تسلیم سکھا تا
پھر علم کو تُو یار ِ جگر سوز ہی پاتا
o سُنیے بس ایک بات اور آخری
ارشدؔ نے گفتگو سے قلندر کی ہے سنی
اقبال: پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغ ِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
من کی دنیا من دنیا سوزو مستی جذب و شوق
تن کی دنیا تن کی دنیا سو دو سودا مکرو فن

تمت بالخیر
پروفیسر سید ارشدؔ جمیل
sarshadjamil@yahoo.com

Sunday 4 October 2009

لیک ڈسٹرکٹ ۔ کیزک جھیل -ونڈر میئر جھیل ۔ پروفیسر سید ارشد جمیل

انسان ابتدا ء ِ آفرینش سے ہی پانی کا محتاج رہا ہے اور گہرے ذخیرۂ آب سے خائف بھی رہا ہے۔ جس طرح آگ سے خائف اور آگ کا محتاج رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پانی کے ذخیروں کو اپنی حاجت کی خاطر محفوظ کرتا رہا ہے۔ بعض معاشروں میں پانی اور آگ کو مقدس مانا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی یہی ہے کہ خلّاق ِ ازل کی یہ دو نعمتیں اسے ڈرانے اور اسکی حیات کو جاری و ساری رکھنے میں ممد و معاون ہیں۔ جہالت اور گمراہی کے سبب انسان انکے خالق کو بھول کر انکی پرستش میں لگ گیا۔ قدرتی ذخائر کے علاوہ انسان تالابب جھیلیں اور ڈیم ہزاروں سال سے بناتا چلا آ رہا ہے۔ قرآن ِ کریم میں ملکہ صبا کے بنائے ہوئے ڈیم (بند ) کی مثال دی گئی ہے۔ جسے قدیم انسانی تعمیراتی کاوش کی اعلٰی مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔ قدرتی ذخیروں میں پہاڑوں پر موجود جھیلیں ہزاروں سال سے انسانی دلچسپی کا مرکز رہی ہیں۔ چند روز پہلے برطانیہ کے ذخیرہ آب کا مجموعہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اپنی حسین ترین جھیل سیف الملوک کا حسن اور دلکشی اپنی مثال آپ ہے۔حسین مناظر کا تقابل بہت مشکل کام ہے بقولِ شاعر
؏ ہر گل را رنگ و بوئے دیگر است۔
بعض ہر پھول اپنی خوشبو اور رنگ جدا گانہ رکھتا ہے گویا ہر خوشبو دار پھول ایک ممتاز اور منفرد و دلکش بو اور رنگ کا حامل ہے۔ اسی طرح قدرتی مناظر میں ہر منظر اپنے حسن کشش اور رنگینی میں آپ اپنی مثال ہے۔
خلاق ِ ازل کا اہل برطانیہ کو لیک ڈسٹرکٹ ایک حسین تحفہ ہے خالقِ بے پرواہ نے کسی کو صحرا اور اسکی نعمتوں سے آزما یا کسی کو برف کی کُلفتوں سے نوازا۔ ہم مڈلز برا سے دو کاروں میں لیک ڈسٹرکٹ کے لئے صبح روانہ ہوئے راستہ اتنا پُر کشش اور کہیں کہیں اتنا خوفناک ہو جاتا تھا کہ نیچے کھائی کو دیکھ کر سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا تھا۔ بعض جگہ وادیوں میں پہاڑوں پر اور انکے ڈھلوانوں پر درختوں کی صفیں بچھی ہوئی تھیں سبزہ پوش پہا ڑوں پر کھڑے سر و[۱] صنوبر[۲] کے نوکیلے سِرے ایک دوسرے سے اُچک کر پستی کو شرم سار کر رہے تھے۔ بعض کوہسارکی انتہائی بلندی پر میپل[۳] کے درختوں کی قطار طویل فصیل کا منظر پیش کر رہی تھی ۔ سہ پہر چار بجے غروبِ آفتاب سے پونے پانچ گھنٹے قبل ہم ہائوز اینڈ کے ایک ہاسٹل میں پہنچے سڑک کئی بار دامنِ کوہ کا چکر لگاتی دروں سے گزرتی ناگن کی طرح لہراتی بل کھاتی ہوئی نشیب و فراز میں اترتی چڑھتی منزل ِ مقصود تک لے آئی سارا راستہ سر سبز و شاداب پھولوں سے لدا پھندا تھا وادیوں اور پہاڑی ڈھلانو ں میں بھیڑوں کے چرنے کا منظر بے انتہا خوبصورت اور دلکش تھا۔ جی چاہتا تھا آدمی اس سبزہ زار میں کالی سفید اور چتکبری بھیڑوں کے چرواہے کے طور پر زندگی گزار دے اس خیا ل ِ خام بلکہ قرآنِ کریم کے الفاظ میں اضغا ث ِ احلام یعنی بے سروپا خواب پر قلم طنزیہ طور پر مسکرایا اور دماغ میں ایک خیال برق کی مانند کوندا کہ میاں یہ تو دیارِ غیر ہے اپنے پیچھے جو اپنے بھیڑیں چھوڑ کر آئے ہو اس رعیت کے راعی کے طور پر ہی بقایا زندگی( بشر طِ حیات ) گزار لو تو بہتر ہے۔ ہائوز اینڈ کا یہ ہاسٹل کیزک جھیل کے ایک کنارے پر ذرا سی بلندی پر واقع تھا چاروں جانب سے میپل اور سرو کے درختوں سے گھِرا ہوا تھا۔ راقم نے ٹیکسلا کے قریب خانپور جھیل اور ڈیم دیکھا ہے یہ اگرچہ بہت چھوٹی جھیل تھی مگر قدرتی تھی اور ایک پیالہ نماوادی کے وسط میں واقع تھی ۔ کیزک جھیل ایک وسیع وعریض رقبہ پر واقع تھی اسکے اطراف میں پہاڑ وں پر جو گرینری تھی وہ خانپور کے علاوہ کلری جھیل کینجھر یا منچھر کے اطراف میں نہیں پائی جاتی ، خانپور جھیل دیگر پاکستانی جھیلوں کی نسبت زیادہ سر سبز ہے۔ البتہ حَنّا لیک کی سرسبزی قابل رشک ہے۔سنا ہے کلّر کہار جھیل بھی کافی سر سبز ہے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ہائوز اینڈ ہاسٹل میں آٹھ نو خاندانوں کو پہنچنا تھا۔ ہم یعنی ایمان ، اسکی بہن ، اسکی چچی، اسکے چچا ، اسکے مما پپّا ا ور اسکے امی ابو پہلا خاندان تھا جو وہاں پہنچا تھوڑی دیر بعد دو خاندان اور پہنچ گئے ۔ ہم نے نماز اور عصر ادا کی اور جھیل کی سیر کو نکلے۔ ہم چونکہ اونچے اونچے درختوں اور پہاڑوں سے گھرے ہوئے تھے اسلئے جھیل کی طرف جانے والا یہ راستہ اچھا نہیں لگا۔ لیکن ہم جھیل کے خلیج نما کنارے کا چکّر لگا کر دوسرے کنارے پر پہنچے تو اندازہ ہوا کہ جھیل بڑی وسیع و عریض ہے۔ وہاں سے ہاسٹل درختوں میں چھپا ہوا نظر آیا۔ یہ کنارہ گدلے پانی کی وجہ سے دلکش نہیں لگا۔ البتّہ دامن ِ کوہ میں پکڈنڈی پر چلتے ہوئے آگے بڑھے تو وہاں صاف پانی تھا۔ بطخیں اپنے بچوں کے ساتھ پانی میں مٹر گشت کر رہیں تھیں ۔ یا د آیا میرے ماموں مولانا سید احسان علی مرحوم بھوپال کے ایک قصبے سیہور کے بچوں کے کھیل کا ایک گیت سناتے تھے ۔ جو بچے دائرے کی شکل تالاب کے کنارے گاتے تھے بول کچھ یوں تھے۔۔۔
اینا ڈینا ڈینا ڈق۔ اتلا قتلا فیلا فق۔
پہلی دوجی تیجی بط۔ چوتھا ننھا پیارا غط۔
بطخ کے پیچھے چھم چھم چھم ۔ قیں قیں قیں قیں جل جل دم۔
اینخ سینخ برچھی بم ۔ ٹولم ٹالی ٹوٹی دھم۔
اُ س کے چند بول اُ س وقت میری سمجھ سے باہر تھے ، آج یہ منظر دیکھ کر کچھ بول سمجھ میں آ ئے ۔ کچھ دیر کی سیر کے بعد رہائش گاہ پر پہنچے۔ وہاں کئی فیملیز قدم رنجاں فرما چکی تھیں۔ لوگ خواتین کی معاونت میں اپنے اپنے بچوں کو کھلانے پلانے میں مصروف ہو گئے۔ ڈوبتے سورج کا نظارہ دنیا و مافیہا سے عارضی لا تعلقی اور زبر دست محویت کا باعث ہوتا ہے۔ پانی میں کسی ذی روح کا منظر ہمیشہ سوہانِ روح کا سبب ہوا ہے۔ لیکن ناجا نے کیوں۔ فنون ِ لطیفہ کی حِس رکھنے والوں کے لئے غروب ِ آفتاب کا منظر ہمیشہ دلکش رہا ہے۔ مصوروں اور تصویر کشی کرنے والوں نے کبھی کیمرے کی آنکھ میں تو کبھی برش اور رنگوں کے ذریعے اسے کینوس پر اتاراہے۔ شام ڈھلتے سورج کی سنہری دھوپ بادلوں کے پھٹے پھٹے آ وارہ غولوں سے چھن چھن کر پتوں پر پڑ رہی تھی ۔ راقم کمرۂ ارتکاز (کنزر ویٹری) میں کھڑا شفّاف شیشے کے اُس پار نظارہ ٔ جمال سے محظوظ ہو رہا تھا ۔ درختوں کے پتّے ہلکی ہلکی ہوا سے نہایت خفیف سر سراہٹ پیدا کر رہے تھے یہ ہرے ہرے پتّے انسانی اور حیوانی زندگی اور اپنی اور انکی بقائے نسل کے لئے جو کارہائے عظیم انجام دیتے ہیں۔ اس پر غور کرتے ہوئے انسان خالقِ کائنات کی صنائی کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ شیخ سعدی نے اس پر بڑا فکر انگیز تبصرہ فرمایا ہے۔
؏ برگِ درختانِ سبز در نظرِ ہوشیار
ہر ورقِ دفتر یست معرفتے کرد گار
یعنی درختوں کے سبز پتے ہوشیار آدمی کی نظر میں پروردگار کی معرفت کے دفتر ہیں۔ آس پاس لگے درخت اور پودے موسم گرما کے باعث پھولوں سے لدے پھندے تھے نئے نئے پتّے نکلے تھے۔ موسم ِ گرما کی خوشگوار ہوا کی لطیف خوشبو دماغ میں بسی جا رہی تھی ادھر جوانوں کے مزید جوڑے اپنے بچوں کے ساتھ نمودار ہو رہے تھے بالکل ایسے ہی جیسے ایمان اور اسکا خاندان ابھی ابھی جھیل کے کنارے بطخ اور ان کے پیچھے انکے بچے ،پانی پر خراما خراما تیر تے ہوئے نظر آئے تھے۔ایک جھاڑی بلکہ چھوٹے سائز کا درخت ایلڈر بیری[۴] اپنے سرخ پھلوں کے گچھوں سے لدھا ہوا اس قدر خوشنما لگ رہا تھا کہ الفاظ اس کے حُسن کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔چیسٹ نٹ[۵] ، ہیزل نٹ[۶] اور کونکر کے اونچے اونچے سایہ دار درخت اطراف کے پہاڑوں پر آنکھوں کو طراوت بخشنے والی سرسبزی کا باعث تھے۔ دور کے پہاڑوں پر راقم کو جانے کا موقع نہیں ملا لہٰذا جو کچھ مشاہدہ ٔ قرب و جوار میں آیا وہ ہی قلم رقم طراز ہے۔ لورل[۷] ، روون [۸]، بیچ[۹] ، اوک [۱۰](شاہ بلوط) کے درخت اور ہولی [۱۱]کے جھاڑی نما درخت کوئی جگہ نہیں تھی جہاں قدم جمائے نہ کھڑے ہوں۔ یہاں آکسی ڈینٹل آئی وی[۱۲] کی بیل بے حد و حساب پھیلتی اور بڑھتی ہے۔ قصبات میں بعض مکانات کے کھڑکی دروازوں کو چھوڑ کر پوری کی پوری دیواروں پر چھائی ہوتی ہے۔ یہ بیل اپنی ہوائی چپکنی[۱۳] جڑوں کے ذریعے دیواروں اور درختوں کے تنوں پر لپٹتی اوپر چھڑھتی چلی جاتی ہے۔
رات کے کھانے اور نماز عشاء کے بعد ہم سب اپنی اپنی قیام گاہوں کی طرف چل دیئے ۔ صبح طلوع آفتاب سے قبل ، صبح صادق کے آغاز میں ایک نوجوان نے خشوع و خضوع سے بڑے روح پرور انداز میں قرأت کے ساتھ فجر کی نماز پڑھائی ۔ نماز سے فارغ ہو کر دوبارہ کچھ لوگ آرام کرنے چلے گئے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ناشتہ کی تیاری شروع ہوئی : فرخ ،ابراھیم ،حسن اور محمد خان صاحبان تیاری اور فراہمی کی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔ جبکہ منتظرین فقرہ بازی سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ بعض ریمارکس پر با ورچی خانے سے جواب آتا تھا کہ کھانا پکا نا تو ہمارا مستقل پیشہ ہے بھائی ، جس پر زوردار قہقہہ پڑتا ۔ فقرہ آتا حسن کو تو برتن دھونے میں کمال حاصل ہے جواب آتا شادی سے پہلے یہ ہی کرتے تھے اور کرتے کیا تھے پھر زوردار قہقہہ پڑتا۔ کبھی کوئی فقرہ خان صاحب کی طرف اچھالا جاتا تو خان صاحب اسکا جواب بھاری بھرکم جملے سے دیتے تھے اور پھر خود بھی شرکاءِ مجلس کے ساتھ قہقہوں میں شریک ہوتے۔ غرض انڈوں پراٹھوں اور چائے کے ساتھ ناشتہ دلچسپ مکالمات ہلکے پھلکے طنز و مزاح او ر فقرہ بازی کے بعد جھیل کیزک جانے کی تیاری کے لئے جوان پھر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ ہائوز اینڈ سے نیچے اتر کر دائیں جانب چکر لگاتے ہوئے ہماری آٹھ گاڑیاں کیزک ٹائون پہنچیں۔ ٹائون میں ہر پول کے ساتھ کائونسل نے پھولوں سے بھرے چھوٹے چھوٹے گملے ہینگنگ باسکٹ (لٹکتی چھولداریوں ) میں آویزاں کئے ہوئے تھے۔ پھولوں میں سرخ پیلے گلابی اور نیلے پھول پٹونیا[۱۴] ، جرینیم[۱۵] ، کرائی سینتھی مم[۱۶] آرکڈ[۱۷] وربینا [۱۸]اور بٹر کب [[۱۹]وغیرہ کا خوشنما امتزاج تھا ۔ برطانیہ میں بڑے سے بڑا شہر ہو یا چھوٹے سے چھوٹا ٹائون ہر جگہ یہ آرائش ِ گل موسم ِ بہار سے آغاز ِ سرما تک لازمی کی جاتی ہے۔ پارکوں میں سڑکوں کے کنارے ، گھروں کے کھڑکی دروازوں میں غرض ہر جگہ رنگ و نور بکھرا ہو تا ہے۔ اور انبساط ِ روح نشاطِ قلب کا با عث ہوتا ہے۔ اکبر الٰہ بادی نے کیا خوب کہا ہے۔
؏ بہار آئی کھلے گل زیب ِ صحنِ گلستاں ہو کر
عنادل نے مچائی دھوم سرگرم ِ فغا ں ہو کر
آج یہاں دھوپ نکلی ہوئی تھی اور یہاں کے لوگ(برطانوی) دیوانے ہو رہے تھے مردوں نے گھُٹنوں تک نیکر پہنا ہوا تھا عورتوں نے برائے نام نیکر رانوں تک پہنا ہوا تھا ۔ مرودوں نے قمیص اتاری ہوئی تھی ،عورتوں سلیو لیس[۲۰] پشت پر دو دھجیوں سے بندھی ہوئی فراک نما چیز پہنی ہوئی تھی گویا پشت تمام عُریا ں اور سینہ نصف سے کچھ کم عُریاں تھا ۔ ٹائون میں گاڑیاں پارک کر کے ہم لوگ ایک پارک میں پہنچے جو جھیل کے کنارے بڑے سلیقے سے سجایا ہوا پارک تھا جس میں تفریح کا ہر سامان موجود تھا ۔ اس پارک کا نام ہوپ[۲۱] پارک تھا ۔ یہاں بھی لان پھولوں کی کیاریاں ، تالاب ، بینچین، پیدل چلنے کی رَوِشیں انواع واقسام کے درخت کہ جنکا ذکر بار بار راقم کر چکا ہے ۔ بیل بوٹے اور شش دری اپنے بنانے والوں کی حسن پرستی کی غمازی کر رہے تھے گویا یہ دنیا میں ہی باغِ امید بہشت کا ایک ٹکڑا تھا۔ اصغر کا ایک مصرع یاد آ رہا ہے اور غالباً یہ پہلا مصرع ہی حسبِ حال ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔
؏ اصغر نشاطِ روح کا اک کھل گیا چمن
ہوپ پارک کے سائیڈ میں لیک روڈ کے ذریعے ہم ٹائون سے جھیل کی جانب چلتے ہوئے لانچ پر چھڑھنے کے مقام تک پہنچے ، یعنی فرئیزر کریگ ۔ فرئیزر کریگ سے ڈروینٹ واٹر کا منظر بقول جان رسکن یورپ کے تین یا چار حسین مناظر میں سے ایک ہے۔ کیزک جھیل مین لانچ کا سفر بڑا فرحت افزا نشاط انگیز اور طراوت ِ دل و دماغ کا باعث ہے۔ یہاں خوشنما کُروز(لانچ یا چھوٹا اسٹیمر) جھیل کی سیر کراتا ہے۔ اور چھے لانچنگ جیٹی کا چکر لگا کر واپس فرئیزر کریگ کے دامن میں چھوٹی سی بندر گاہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ ہماری تمام پارٹیوں نے اپنے اپنے ٹکٹ خریدے اور لانچ میں سب ساتھ بیٹھنے کے لئے کُروز میں چڑھے دو ساتھی اپنی کاروں پہ پارکنگ ٹکٹ لگانے گئے دریں اثنا ء کُروز کے بوائے سیلر (کنڈکٹر) نے لنگر کھول دیا دونوں سامنے ہی تھے مگر کُروز میں نہ چڑھ سکے وہ کنارہ چھوڑ کر روانہ ہو چکا تھا ۔ بوائے سیلر نے ہمیں چار نمبر جیٹی پر اترنے اور انکو دوسرے کُروز میں آنے کو کہا۔ اس طرح دو جوڑوں کے ایک ایک ساتھی عارضی طور پر بچھڑ گئے ایک جوڑے پر تو یہ بڑا یہ غضب ہوا اسلئے کہ انکی تو نئی نئی شادی ہوئی تھی ۔ کُروز سے ہم سب لوگ جیٹی نمبر چار پر اُتر گئے وہاں کچھ لوگ پہاڑ پر سفر کرنے چلے گئے۔ کچھ جھیل کے پانی میں پیر ڈبونے کے مشغلے میں مصروف ہو گئے۔ راقم نے اہلیہ کے ساتھ لکڑی کی رائونڈ ٹیبل کے گِرد بیٹھ کر لڈو کی بازی لگائی ایمان مما پپا کے ساتھ جھیل کے پانی سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ جھیل کے چاروں طرف ہرے بھرے پہاڑ اپنے دامن پھیلائے خالق ِ عظیم کے حُسنِ تخلیق کا منہ بولتا ثبوت پیش کر رہے تھے۔ اس نہایت حسین بے حد خوبصور ت اور انتہائی پُر کشش منظر کو الفاظ میں قلم بند کرنا ایسا ہی نا ممکن ہے۔ جیسا ان پہاڑوں کو الیکٹریکل بیلنس آف جو ئیلرز [۲۲]( برقی ترازو برائے صرّاف) میں تولنا نا ممکن ہے۔بچھڑے ہوئے ساتھیوں کے پہنچنے کے بعد ہم ایک واپسی کی کُروز میں بیٹھے ۔ اس سفر کے دوران جھیل میں کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے نظر آئے۔ سینٹ ہر برٹ جزیرہ، اولڈ برائون جزیرہ ، ریمپ شالم کا جزیرہ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک نہایت چھوٹے جزیرہ پر تمام کا تما م خود ر و لہسن لگا ہوا ہے۔ سب جزیرے قومی اوقاف[۲۳] (نیشنل ٹرسٹ ) کی ملکیت ہیں۔ جنگلی لہسن کا ذکر راقم نے ڈریکولا ناول میں پڑھا تھا ۔ یہ ورائٹی فقط یورپ میں ہوتی ہو گی کیونکہ انڈو پاکستان کے فلورا میں ایلیم سٹائیوم [۲۴]کی کوئی خود رو ، ورائٹی نظر سے نہیں گزری ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کیشپ [۲۵]نے بھی گراسز آف پنجاب [۲۶]میں ایسا کوئی ذکر نہیں کیا ۔ پنجاب یونیورسٹی کے ہر بیریم[۲۷] کو دیکھنے کا اتفاق ہوا کیشپ کا محفوظ [۲۸]ذخیرہ بھی دیکھا لیکن اُس وقت اس نقطۂ نظر سے فیملی للی ایسی[۲۹] پیشِ نظر نہیں تھی۔ ہم سب واپسی کے سفر سے بہت محظوظ ہوئے اس مرتبہ ہم لوگ کُروز کے اگلے کھلے حصّے میں بیٹھے تھے جہاں پانی اُچھل اُچھل کر ہم سے اَٹھ کھیلیاں کر رہا تھا۔
غالباً آتے ہوئے تو کوئی نہ کوئی یہ شعر ضرور گنگنا رہا ہو گا انشاء اللہ خاں انشاء سے معذرت کے بعد پہلے مصرعے میں تصرّف کے ساتھ ملاحظہ ہو۔
؏ نہ چھیڑ اے جھیل کے پانی ہمیں تو راہ لگ اپنی
تجھے اٹھ کھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔
کیزک کی سیر کےبعد ہاسٹل پہنچے رات کا کھانہ کھایا گیا وہی ہنسی مزاق طنز و استہزا (اس تمام فقرہ بازی کی خوبی یہ تھی کہ یہ ہتک آمیز اذیت ناک اور عزتِ نفس کو مجروح کرنے والے مذاق پر ہر گز مشتمل نہ تھی) نماز سے فارغ ہوکر ایک ہلکہ پھلکا مشاعرہ ہوا جس میں راقم نے ایک مزاحیہ فی البدیہہ ایک مزاحیہ نظم سنائی(مشاعرہ کی وڈیو بلاگ میں شامل ہے)۔ تیسرے دن صبح ناشتہ کے بعد سب لوگ واپس اپنی اپنی منزل کی طرف گامزن ہونے کے لئے مستعد ہوئے۔ اکثر کا پروگرام ونڈر میئر جھیل کی سیر کرتے ہوئے واپس جانے کا تھا ۔ راستے میں تین جھیلیں آئیں ہر مرتبہ راقم کو شبہ ہوتا تھا کہ شاید یہ ونڈر میئر جھیل ہے لیکن ٹام ٹام [۳۰] (نیوی گیٹر) آگے ہی لئے چلا جا رہا تھا ۔ آخر کار اس نے اعلان کیا کہ آپ اپنی منزل ِ مقصود پر پہنچ گئے ہیں ۔ یہ جھیل بھی کافی خوبصورت ہے۔ لیکن کیزک سے کم۔ اس جھیل پر ہم نے نصف دن گزارا راقم ٹرین میں بیٹھا ایمان بطخوں کو کھانا کھلاتی رہی مناظر تقریبا ً کیزک جیسے تھے ۔ یہاں نسبتا ً بڑے اسٹیمر بھی چل رہے تھے۔


1Pine Tree2. Juniper 3. Maple or Acer 4. Elderberry 5. Chestnut 6. Hazelnut 7. Laurel 8. Rowan 9. Beech 10. Oak 11. Holly 12. Ivy 13. Clinging aerial roots 14. Petunia 15. Geranium 16. Chrysanthemum 17. Orchid 18. Verbena 19. Buttercup 20. Sleeveless 21. Hope 22. Electrical balance 23. National trust 24. Allium-sativum 25. S. R. Kayshup. Prof 26. Grasses of Punjab 27. Herbarium 28. Collection of Preserved Plants 29. Liliaceae 30. Tom Tom (Navigator)