Tuesday 20 October 2009

میں اقبال اور پیرِ رومی پروفیسر سید ارشد جمیل

o اقبال تجھ سے معذرت کرتا ہوں پیشگی
کر دیں معاف بات کسی کو بُری لگی
برعکس فکر و دا نشِ حاضر سدا رہا
رجعت پسند دشمن ِ افکارِ ارتقا
تعلیم پیر ِ روم سے دہشت کی لے کے وہ
کہتا تھا مطلب دین کا ہے جنگ اور شکوہ
کیا مصلحت ہے دین کی سمجھا ئیے ذرا؟
اقبال نے سوال پیرِ روم سے کیا
جواب:-مصلحت در دینِ عیسٰی غار و کوہ
مصلحت در دینِ ما جنگ و شکوہ
o مغرب کے سخت خلاف ہے اقبال کا پیام
کہتا ہے اس کو عظمت ِ ابلیس کا نظام
نااہل عصر ِ نو کے ہیں یہ فلسفی تمام
سقراط روسو سارتر اور ڈارون بنام
ہیں کارل مارکس گو ئٹے فرائیڈ ابوجہل
دینِ ابولہب پر کرتے ہیں سب عمل
سنیئے حوالہ گفتۂ اقبال کا ذرا
موصوف نے کہا ہے یہ موصوف نے لکھا
بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بو لہبیست
یعنی کہ مصطفٰی سے ہے وابستگی ہی دیں
گر یہ نہیں تو ظلم سے بھر جائے گی زمیں
گمرہ ہیں فلسفی وہ ابو لہب کی طرح
جن کا نبی کریم سے کچھ واسطہ نہیں
o مغرب سے تھا اُسے تو خدا واسطے کا بیر
کہتا تھا کلچر انکا بہت جلد ہو گا ڈھیر
اسکا حوالہ اردو کا یہ شعر بھی سُنیں
پھر اسکے عقل و ہوش پر اپنا بھی سر دھنیں
اقبال: تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا
o کیسی بلا تھا چاٹ گیا یورپی علوم
کہتا تھا کچھ نہیں ہے یہ الفاظ کا ہجوم
اک روز اپنے پیر سے پوچھا کہ اے جناب
روشن ضمیر آپ ہیں اور عالم ِ کتاب
اقبال: پڑھ لئے میں علوم ِ شرق و غرب
روح میں اب تک ہے باقی درد و کرب
جواب ِ مرشد : دست ِ ہر نا اہل بیمارت کُند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کُند
یعنی: ہر نا اہل طبیب سے درد اور بھی بڑھا
نسخہ تو تیرے پاس تھا محروم کیوں رہا
ہر درد کا علاج عملِ اسوۂ حضور ؐ
آ میرے پاس میں کرونگا کرب تیرا دور
o اقبال کے دماغ میں ماضی کا تھا فتور
روشن خیال حال کا اسکو نہ تھا سرور
تہذیب ِ نو تو اسکی نظر میں فریب ہے
ملت کو دے رہا ہے عجب طرح کا شعور

اقبال : نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صنا عی مگر جھوٹے نگو ں کی ریزہ کاری ہے
o کہتا تھا یہ معاش کا چکر ہے اک فساد
کیا جانے اسنے دیکھے نہیں یورپی بلاد
اقبال: دورِ حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکرِ معاش
o کہتا ہے دل سے آدمی کہ نورِ حق گیا
یہ ہے یہودی فکر کا ہی سب کیا دھرا
اقبال : ایں بنوک ، ایں فکرِ چالاک ِ یہود
نور ِ حق از سینۂ آدم ربود
یعنی کہ بینک اور یہ چالاکی ٔ یہود
سینے میں نور ِ حق کا نہیں چھوڑتے وجود
o جمہوریت کے بارے میں فکرِ عجیب تھی
کیونکر ہو دو سو خر مغز سے فکرِ آدمی
اقبال: گریز از طرز ِ جمہوری غلام ِ پختہ کار ے شو
کہ از مغزِ دود صد خر فکر انسانی نمی آید
o کیوں کہ گیا وہ صاحب ِ ادراک و بصیر ت
شاید اسے پسند نہ تھی صنعت و حرفت
اقبال : احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
o جمہوریت کو کہتا ہے وہ مغرب کی غلامی
گنتی سے یہ کمزوروں کی بنتی ہے عوامی
اقبال: جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
o باتیں عجیب فلسفہ اقبال کا عجیب
رومی کا وہ مرید قلندر وہ حبیب
کہتے ہیں اسکو اہل جنوں آج بھی طبیب
ماضی پسند مسلک ٔ دہشت کا وہ نقیب
ذکرِ رجوعِ عظمتِ رفتہ سُنیں ذرا
آثار ِ قُرطبہ پہ کھڑے ہو کے یوں کہا
اقبال : آبِ روان ِ کبیر* تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا کسی اور زمانے کا خواب
گویا زمانہ لوٹ کے آئےگا پھر وہاں
تہذیبِ مصطفٰی ؐ کا چلن عام تھا جہاں
*اسپین کا ایک دریا

o ملت کو سمجھتا ہے وہ بھٹکا ہو ا آہو
کہتا ہے یہ رب سے میری سُنتا ہے فقط تو
محروم ِ تمنّا ہے دل ِ مردۂ مو من
مسلم کا بہے جادۂ اسلام پہ لو ہو
اقبال: یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت ِ صحرا دے
o کہتا ہے کہ تعلیم سے ملحد ہوئے ناداں
تعلیم کے اثرات سے شاعر ہے پریشاں

اقبال: ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

o ہے علم کا مقصد بھی عجیب اُس کی نظر میں
وہ علم نہیں جس نہ عرفاں ہو بشر میں
ہے یورپ و امریکہ کی تعلیم و تصنع
نفسانی ترقی ہے یہ شیطاں کے اثر میں
ہے فکر یہ اقبال کی رومی کے سحر میں
رومی : علم را برتن زنی مارِ بود
علم را بردل زنی یار ِ بود
کیوں کا م لیا علم سے تعمیر ِ بدن کا
لپٹا ہے تبھی سانپ تجھے چوڑے سے پھن کا
گر قلب کو تعلیم سے تسلیم سکھا تا
پھر علم کو تُو یار ِ جگر سوز ہی پاتا
o سُنیے بس ایک بات اور آخری
ارشدؔ نے گفتگو سے قلندر کی ہے سنی
اقبال: پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغ ِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
من کی دنیا من دنیا سوزو مستی جذب و شوق
تن کی دنیا تن کی دنیا سو دو سودا مکرو فن

تمت بالخیر
پروفیسر سید ارشدؔ جمیل
sarshadjamil@yahoo.com

1 comments:

Anonymous said...

بہت ہی خوبصورت نظم ہے، خدا آپ کو عمر دراز عطا کرے اور آپ کے متعلق مزید معلومات تک رسائی دلائے۔ میں بھی فلسفے کا طالب علم ہوں، اور فلسفے کی تعلیمات سے بخوبی واقف ہوں۔ میرے نزدیک تمام تر فلسفہ مسلک پرستی کی گود میں اُترتا ہے۔ ایک فلسفی کے لیے مسلک پرست ہونا بہت ضروری ہے ورنہ وہ اپنی تعلیم تک نہیں پہنچ سکتا جیسے کچھ فلاسفہ عقلیت پسند تھے، کچھ تجربیت پسند اور اقبال کا شمار کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ ہم اقبال کو صوفی کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں۔

Post a Comment