Tuesday 22 May 2012

غزل

تکبر سے مٹے گی رسمِ الفت تم نہ سمجھو گے
تصنع سے نہیں ہوتی محبت تم نہ سمجھو گے
تعصب کو نہ بڑھکائو یہ وہ آتش ہے نادانوں
کہ جل کر راکھ ہو گی جس سے خلقت تم نہ سمجھو گے
نہ کیجے تلخ باتیں یہ دلآزاری نہیں اچھی
کہ ٹوٹے دل بھی بن جاتے ہیں آفت تم نہ سمجھو گے
بجائے پرسشِ غم اور کرتے ہو نمک پاشی
ہرا ہوتا ہے یوں زخمِ عداوت تم نہ سمجھو گے
ضمیر ِ سخت جاں دولت کے بدلے بک نہیں سکتا
کرے گا تنگ آکر یہ بغاوت تم نہ سمجھو گے
حفاظت کر نہیں سکتے ہو تم نو خیز غنچوں کی
ہر اِک چہرے پہ ہوگی یاس و حسرت تم نہ سمجھو گے
درندے پالتے ہوں کیوں زمیں کی گود میں ظالم
بڑھے گی اور چاروں سمت وحشت تم نہ سمجھو گے
بنے گا خون مظلوں کا اک دن سیلِ طوفانی
تشدد سے بڑھے اور نفرت تم نہ سمجھو گے
مدد سے بے ضمیروں کی سجا تختِ ستم کب تک
قیامت تک نہیں رہتی حکومت تم نہ سمجھو گے
ہے تعظیم ِ عدالت ہر بشر پر لازمی ارشد ؔ
نہیں تسلیم کیوں حکمِ عدالت تم نہ سمجھو گے
پروفیسر سید ارشد جمیل
03218731547
sarshadjamil@yahoo.com


0 comments:

Post a Comment