Tuesday 23 June 2009

کثیر الجہتی ایجنڈا پروفیسر سید ارشد جمیل

پی پی اور نون لیگ میں مفاہمت کی ڈور اگرچہ کھنچتے کھنچتے اتنی زیادہ تنائو میں آگئی ہے کہ کبھی بھی ٹوٹ سکتی ہے حالیہ اسمبلی کے اجلاس میں نون لیگ کے سرکردہ رہنما کو صدر کے غیر ملکی دورے اور افواج پر بھاری اخراجات [از قسم غیر ترقی پذیر ] بہت ناگوار گزرے اور اسمبلی میں ان پر تنقید کےباعث دونو ں جانب کے ارکان نے پھر ڈور کو کھینچ کھینچ کر توڑنے کی بھر پور کوشش کی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس ڈور میں سوت کے ساتھ ساتھ مفادات کی نائیلون کا تار بھی شامل ہے کہ کمبخت ہر بار کنٹرول لائن پر حد متحاربہ کو چھوڑ کر واپس لوٹ آتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا مزاج بڑا عجیب ہے یہ بھی مذہبی رہنمائوں اور شیوخ کے پیروکاروں کی طرح کسی قسم کی تنقید اپنے رہنمائوں پر برداشت نہیں کرتی ہیں اور معمولی تنقید پر بھی ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جاتی ہیں خواہ وہ صوبائی اسمبلی کا فلور ہو یا قومی اسمبلی کا حال یا سینٹ کا ایوان۔ یہ جماعتیں جمہوریت کا راگ اٹھتے بیٹھتے الاپتی رہتی ہیں مگر ان کے یہاں اندرون جماعت جمہوریت عنقا ہے بلکہ اندرون جماعت انتخاب کا نام لینے والے کا پتا صاف کر دیا جاتا ہے۔ آج ن لیگ کے سرپرست جناب نواز شریف نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت نئے محاذ کھولنے سے گریز کرے موصوف کے بقول شدت پسندی کی بنیادی وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے حقیقت بھی یہی ہے نیوٹن کا حرکت کا قانون اول بھی یہی کہتا ہے کہ ہر حرکت کا مساوی اور مخالف رد عمل ہوتا ہے۔ To every action there is an equal and opposite reaction. اسمبلی کے فلور پر گیند پھینکو گے تو واپس تمہیں آ کر لگے گی اسمبلی ہال کی کھڑکی کے بند شیشوں پر کہ جنکی پشت پر مزید پٹ چھڑھے ہوئے ہیں ٹارچ کی روشنی مارو گے تو وہ منعکس ہو گی مگر روشنی کسی اور چہرے کو سیاہ سے سفید کر رہی ہو گی ۔لیجئے قلم بہک گیا سائنسی اصول کی تشریح اسمبلی ہال پر ہونے لگی۔ یاد آیا ہمارے فزکس کے استاد چھوٹے آئر صاحب جنہوں نے ہمیں کالج میں پڑھایا تھا [جبکہ آنجہانی بڑے آئر صاحب نے ہمیں ہائی اسکول میں پڑھایا تھا]۔ آنجہانی چھوٹے آئر صاحب فرمایا کرتے تھے کلا س روم کی کھڑکی کے شیشے پر پتھر مارو گے تو جتنی طاقت استعمال کروگے اُسی حساب سے نقصان ہو گا ۔ بھر پور طاقت سے پتھر مارو گے تو شیشہ سینکڑوں کرچیوں میں بکھر جائے گا[ ہو سکتا ہےکوئی کرچی تمہاری آنکھ پھوڑ دے]۔ 
اْس وقت ڈرونز طیارے اور خود کش جیکٹیں نہیں ہوتی تھیں ورنہ شاید انکی مثال دیتے۔
نون لیگ کے سربراہ نے مزید ایک پتہ کی بات کی بحرانوں سے نجات کے لئے کثیر الجہتی ایجنڈے کو لے کر چلنا ہوگا۔ کیا موصوف نے غور کیا کہ حکمراں ٹیم کےترجمانوں کے بھانت بھانت کے بیانات کی روشنی میں کسی کثیر الجہتی ایجنڈے پر اتفاق ہو سکتا ہے ؟ اول تو یہ اصطلا ح یہ نا قابل فہم ہے مثلاً الف کی جہت امریکہ کی تابعداری ہے ب ،اور ج، کا ایجنڈا امریکہ مخالف پالیسی اختیا ر کرنے پر زور ہے جبکہ د، اور،ھ کی سمتیں ان دونوں سے بالکل جدا جدا ہیں۔ سادہ سے الفاظ میں ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ امریکہ کی اطاعت میں فوجی آپریشن صورت حال کو ابتر کر رہا ہے اور اس جہت پر پاکستان کی اکثریت یقین رکھتی ہے۔ جبکہ حکومت کا موقف یہ ہے کہ امریکہ ہمارے علاقوں میں فوج کشی کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف ہم سے جنگ لڑا رہا ہے اور ڈرونز حملوں کا ذریعے خود بھی برسر پیکا ر ہے۔ اگرچہ ہمارے علاقوں میں اس جنگ سے ہمارے ہی لاکھوں افراد مصائب مشکلات بے گھری،خوراک، علاج و تعلیم سے محرومی جیسے مسائل سے دوچار ہیں حکومت کا موقف اور امریکہ کا منشا یہ ہے کہ اس سے بھی زیادہ ہونا چاہیےاور مزید محاذ کھلنے چاہیں۔ علادہ ازیں ایک جہت وہ ہے کہ جس میں پسماندہ صوبے کے نوجوانوں کو بلکہ نادانوں کو پڑوس کی ایک ازلی مخالف قوت ہر طرح سے دامےاور درمے آمادہ پیکار علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہی ہے اور ۱۹۷۱ کے مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا کرنے کے در پے ہے۔ ان نادانوں کو وہ حکایت یاد نہیں جس میں ایک ضعیف دانا کسان نے اپنے چاروں بیٹوں کو بستر مرگ پر سوت کے دھاگوں کا ایک ایک بغیر بٹا لچھا ہر ایک کو دیا اور کہا اسے توڑو ہر بیٹے نے ذرا سی طاقت سے وہ لچھے توڑ دیئے پھر کہا ایسے چار سوتی دھاگوں کو بٹ کر ایک رسی بنائو اور پھرہر ایک سے کہا کہ اسے توڑو لیکن وہ نہیں ٹوٹی ۔ کسان نے کہا بیٹا باہمی اتفاق سے رہنا تو تمہاری طاقت کے آگے دشمن ٹہر نہیں سکے گا۔ کاش یہ لوگ اس بات کو سمجھتے کہ ؏ وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ کاش ہمارے سیاستداں نقطہ اتفاق سمجھتے اور قوم کو انتشار سے نکالنے کے لئے خود ایک نظریہ پر متفق ہوتے۔

1 comments:

جعفر said...

عمدہ تجزیہ۔۔۔!!

Post a Comment