Thursday 25 June 2009

بے خبری یا با خبری پروفیسر سید ارشد جمیل

بے خبری یا با خبری پروفیسر سید ارشد جمیل
مڈلز برا کی ایک بند گلی سالکوم میں ایک نیم کشادہ مکان کے لان میں صبح میں اور میری پوتی اور اہلیہ چہل قدمی کرتے ہیں جو پتے جھڑتےجاتے ہیں میں ،میری پوتی اور اسکی دادو امی جھک جھک کر اٹھا کر ایک کونے میں جمع کرتے جاتے ہیں۔ یہاں اتوار کے دن میرے بیٹے لان مور چلاتے ہیں۔ میری اہلیہ ذرا دور تک واک کرکے گھر چلی جاتی ہیں جبکہ میں اور ایمان جمیل[پوتی] لان میں پتے چنتے رہتے ہیں ایمان کی دادو کا ارشاد ہے کہ برنارڈ اسطرح جھکنے اور پھر اٹھنے کو صحت کے لئے ایک مفید عمل گردانتے ہیں یہ جارج برنارڈ وہی ڈاکٹر ہیں جنہوں نے جنوبی افریقہ میں ہارٹ ٹرانشپلا نٹیشن [تبدیلی قلب] کا پہلا آپریشن کیا تھا۔ راقم نے اور راقم کی اہلیہ نے انکی کتاب صحت اور حفظان صحت پرمشتمل مشوروں سے لبریز خود نوشت پڑھی ہے اور واقعی یہ مشورہ آدمی کو سکون عطا کرتا ہے یعنی ریلیکس کرتا ہے۔ویسے ہم تو دن میں کم از کم سترہ بار تو جھکتے اور پھر اٹھتے ہیں۔ آج جب میں اور میرا ننھا مدد گار ''برگ چُنی'' یعنی لیف کلیکشن کر کر کے ایک کارنر میں جمع کر رہے تھے تو ہوا کبھی پتوں کو بکھیر دیتی تھی اورکبھی اڑا کے لے جاتی تھی۔ راقم کو اس پر اپنا ہی ایک شعر یاد آ گیا اگرچہ اس مفہوم کے اور بھی اشعار مختلف شعراء نے کہے ہوں گے لیکن فی الحال آپکی تفریح سماعت یا تفنّنِ طبع یا اگر آپ کو پسند نہ آئے تو سمع خراشی کےلئے حاضر ہے ۔
؏ چند لمحات گزارے بہ صبا خانہ بدوش
کیا ملا شاخ سے اے بر گ بچھڑ جانے سے
ہم جب مئی کے آخر میں مڈلز برا پہنچے تو اگرچہ بہار رخت ِ سفر باندھ چکی تھی لیکن خوشگوار موسم اور تابڑ توڑ بارشوں نے اپنے شہر کی گرمی جو کہ کوئٹہ کے بعد ملک کے بڑے بڑے شہروں میں سب سے کم گرمی مانی جاتی ہے۔[ بلکہ کبھی کبھار تو کراچی کا درجہ حرارت کوئٹہ سے کم ہوتا ہے،گرمیوں میں] کے اثرات دھو دیئے۔ بلکہ سچ پوچھئے تو مجھے تو کبھی کبھی باہر نکلتے وقت جیکٹ کے نیچے سوئٹر پہننا پڑتا ہے۔ لیکن میں اکثر لان میں چہل قدمی کے لئے ایسے ہی نکل جاتا ہوں۔ ایمان جمیل کو ٹھنڈ بالکل نہیں لگتی ۔ اس کی خوش مزاجی نے آج ہمارے پڑوسی لو رینزو سے تعارف کرادیا وہ اپنے لان میں ٹہل رہے تھے کہ ایمان صاحبہ [جو ابھی بمشکل ڈھائی سال کی ہیں] ان سے ہیلو ہائے کرنے پہنچ گئیں۔
مختصر تعارف کے بعد باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھا کہ آپ کیا پڑھاتے تھے راقم نے بتا یا کہ میں ہائر سیکنڈری اسکول یعنی اعلٰی ثانوی اسکول کی سطح پر بائیلوجی اور گریجویشن کی سطح پر باٹنی پڑھاتا تھا موصوف نے فرمایا معذرت باٹنی کیا ہوتی ہے پہلے تو میں سمجھا کہ میرے انگریزی کے لہجے سے انہیں بات سمجھ میں نہیں آئی لیکن جب میں نے دوبارہ ذرا ٹہر ٹہر کر باٹنی دہرایا تو معلوم ہو ا کہ موصوف نا واقف ہیں یا بھول گئے ہیں میں نے تشریح کی تو پھر کچھ سمجھنے کے سے انداز اختیار کئے۔ ایک طرف یورپ کے ایک عام پڑھے لکھے کا یہ حال ہے تو دوسری طرف کل ۲۳ جون کو میں نے بی بی سی ریڈیو سے خبر سنی کہ ایک مشہور براڈ کاسٹر اور ٹی وی کا میزبان اور زبر دست پیانو بجانے والا اسٹیفن ریس ۸۸ سال کی عمر میں آنجہانی ہو گیا ۔
اسی دن شام کو میں نے گوگل کے ذریعے وکی پیڈیا میں تلاش کیا تو معلوم ہوا اسٹیفن ریس کا نہ صرف ذکر ہے بلکہ ۲۲ جون ۲۰۰۹ کو انتقال کا بھی تذکرہ ہے ۔ یہ خبر بطور اطلاع وہاں درج ہے۔گویا مغرب کی صورت و صوت کی دنیا کا ایک صدا کار محفل سے اٹھ گیا۔بقول جگر
؏ جان کر مِن جملہء خاصان ِ میخانہ مجھے
مدّتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
واہ کیسی بے خبری اور کیسی با خبری ۔ بہر حال پہلا عمل چنداں قابل توجہ اس لئے نہیں کہ یہ شاذ بھی ہو سکتا ہےجبکہ دوسرے عمل پر ان اقوام کو کہ جو علم تعلیم تعلم اور معلومات کے میدان میں تو مغربی اقوام کی پیروی نہیں کرتی ہیں جبکہ لباس وضع قطع چال ڈھال ناچ رنگ خاندانی معاملات معاشقے دوستیاں اور ذاتی دشمنیوں میں مغربی فکرو عمل [تباہی طرف گامزن روش] کی ضرور پیروی کرتی ہیں کاش انہیں یہ علم ہوجائے کہ علم کے باب میں تساہل سے انسان کتنی بڑی دولت سے محروم ہوجاتا ہے جبکہ مذکورہ بالا روش اگر اختیار نہ بھی کی جائے تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اہل مشرق کو لباس کے بدلے کتا ب ، ناچ کے بدلے کمپیوٹر ، خاندان کی تباہی کے بدلے والدین اور بزرگوں کی محبت اور احترام اور مشرقی روایات کو از سرِ نو رائج کرنا چاہیے یہ وہ اسباق ہیں جو مجھے یورپ اور برطانیہ کی صاف ستھری گلیوں، ہر لمحہ مرمت کی جانے والی سڑکوں ، ہر سٹی کونسل کے ذمہ داران کا بے حد احساس ذمہ داری کے ساتھ کام اور ہر فرد کا اپنے ماحول اور خود ذات کو صفائی ستھرائی سے رکھنا دوسروں کے معاملات میں بے جا مداخلت سے بچنا ، ٹریفک قوانین کی پابندی سختی سے کرنا ، نظر آتے ہیں ہمارےلوگ ان ملکوں کا دورہ کرنے والے ٹریننگ پر آنے والے افسران اور دیگر افراد بالکل نظر انداز کرکے جاتے ہیںورنہ وہ بھی جنوب مشرق کے ممالک میں ملائیشیا کی طرح عمل کرتے۔ کاش انہیں یہ احساس ہوجاتا کہ گلیوں کو مکانات کو سڑکوں کو صاف رکھنا ہی کتنی بڑی نعمت ہے جس سے ہم محروم ہیں۔ جگر کا ایک مصرعہ یاد آیا کیا خوب ہے۔
؏فکرِ جمیل خواب ِپریشاں ہے آجکل

2 comments:

Ibne Riaz said...

بہت عمدہ۔ اندازہ ہوا کہ پرسکون زندگی کتنی بڑی نعمت ہے۔ جہاں تک جناب لورینزو کی باتنی سے بے خبری کا تعلق ہے، ممکن ہے کہ یہ ان کے نظامِ تعلیم کے سبب ہو۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جو مضمون ہمارے لازمی کی حیثیت سے پڑھایا جاےَ وہ وہاں اختیاری ہو۔ یوں بھی وہاں تخصص کے مضامین شاید ابتدایَ جماعتوں سے ہی اختیار کر لیے جاتے ہیں۔

عنیقہ ناز said...

ہت خوبصورت اردو کسی بلاگ پہ نظر آئ۔ سچ کہا آپ نے ہمارے یہاں لوگ غیر ضروری تفصیلات میں اتنے الجھے رہتے ہیں کہ ضروری چیزوں کا خیال نہیں آتا۔ حتی کہ ہم کسی المیہ کا سامنا کرلیتے ہیں۔

Post a Comment