Friday 17 July 2009

سکون کا سراب پروفیسر سید ارشد جمیل

میں میرا بیٹا فرخ انکے دوست ڈاکٹر زبیر کل شام مغرب کی نماز پڑھنے جا رہے تھے راستہ میں؛ نہایت شستہ و شائستہ ،اعلٰی تعلیم یافتہ حافظ قرآن شعبہ طب سے وابستہ ڈاکٹر زبیر کہنے لگے ہم جب کراچی میں تھے تو کچھ احباب اہل ِمغرب کا نقشہ کچھ ایسے کھینچتے تھے کہ وہاں لوگ درد و غم کے مارے اپنے اعمال بد کے ہاتھوں شکستہ و درمان بربادی کی راہ پر بگٹٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں۔لیکن میں نے یہا ں آکر دیکھا کہ بڑے سکون کے ساتھ صاف ستھرے ماحول میں پر امن ہر فرد اپنی دنیا میں مگن خوشحال زندگی گزار رہا ہے۔ جو نقشہ ہمارے احباب ِ فکر ہمیں دکھاتے تھے یہاں ہم نے قطعی مختلف پایا ۔ راقم نے عرض کیا کہ بظاہر پر سکون ہیں لیکن طلاقوں کی کثرت ،بچوں کی پرورش کی ذمہ داری پر مناقشہ اور شادی کی ذمہ داری کا جوا اتار پھینکنا وہ مسائل ہیں جو اس معاشرت میں بہت عام ہیں اور ذہنی پریشانی دکھ اور درد کے لئے کافی ہے۔ ڈاکٹر موصوف نے فرمایا کہ وہ (یہاں کے لوگ) اس سے بھی تفریح لیتے ہیں(انجوائے کرتے ہیں)۔ میں نے محسوس کیا کہ یہاں پڑھنے اور یہاں رہنے کے سبب، نیز میڈیا کے اثرات کے باعث اہل برطانیہ کی ظاہری زندگی سے اہل مشرق بہت بے حد متأثر ہیں اور اس تا ٔثر کو ختم کرنےیا کم کرنے لئے راقم کی چند منٹ کی نشست اور گفتگو کا رگر نہیں ہو سکتی، لہٰذا اُس وقت خاموشی اختیا ر کر لی۔
اگر اسلام سے قطع نظر صرف مشرق کے نظریہ حیا ، پاک دامنی اور عفت و عصمت کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بدھ مت ہو کہ ہندو مذہب چین کے مذہب ہوں یا ذردشتی مذہب (پارسی) سب میں ہی ننگا پن، بے حیائی، قانونی یا مذہبی رسم و رواج کے مطابق ازدواجی تعلق کے بغیر میل ملاپ کو نہ صرف نا پسند کیا جاتا بلکہ بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ خود برطانیہ کا یہ حال ہے کہ آج سے تقریباً ایک صدی قبل خواتین ٹخنوں تک لمبی فراک یا آدھے سے زائد پنڈلیوں کو ڈھانپنے والا اسکرٹ (جیسا ہمارے یہا ں بھیل اور تھر کے باشندے گھاگھرہ پہنتے ہیں )پہنتی تھیں۔ یہ ۳۰ یا ۴۰ سال پرانی بات ہے کہ جب منی اسکرٹ کا فیشن چلا تو دانش وروں ، سن رسیدہ سیاستدانوں اور پروفیسروں کی اکثریت نے اسے ناپسند کیا اور اعتراض اُٹھایا راقم نے خود ریڈر ڈائجسٹ میں منی اسکرٹ کے خلاف اور حق میں بحث پڑھی اور آخر کار بڑوں کو چھوٹوں کے آگے ہتھیا ر ڈالتے بھی دیکھا ۔ اور آخر کار صورتحال یہا ں تک پہنچی کہ اب عورتوں کے جسم پر برائے نام لباس قسم کی کوئی چیزباقی رہ گئی ہے اور مرد صرف جانگیے تک آ گئے ہیں۔ یہ سب کچھ انیسویں صدی کے آغاز میں مغربی مفکرین اور دانشوروں کی شخصی آزادی کی اس تحریک کا نتیجہ ہے جس کی رو سے ہر فرد کو اپنی خواہشات لباس تراش خراش وضع قطع اور ازدواجی معاملات میں مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ اس دور میں انسانی اخلاقیات کے بنیادی تصورات کو بھی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا گیا ۔ لہٰذا اس قسم کے سوالات نئی انقلابی سوسائٹی میں اٹھنے لگے کہ نکاح کے بغیر کوئی آدمی کسی سے محبت کر لے تو کیا بگڑ جاتا ہے اور نکاح کے بعد کیا دل آدمی کے سینے سے نکل جاتا ہے کہ اس سے محبت کرنے کا حق چھین لیا جائے ۔ افسانوی اسکول ِ فکر (1) کی ایک فرانسیسی مصنفہ ژورژساں (2)اس گروہ کی لیڈر تھی اس نے تمام اخلاقی اصولوں کو توڑااور ایک شوہر کی بیوی ہوتے ہوئے نکاح کے بندھن کے باوجود بیشتر مردوں سے آزادانہ تعلقات قائم کئے کم از کم چھ آدمی تو ایسے تھے جن سے اعلانیہ اور باقاعدہ آشنائی اور تعلقات تھے ۔ اُ س کے انہی دوستوں میں سے ایک اسکی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے۔ '' ژورژ ساں پہلے ایک پروانے کو پکڑتی ہے اور اپنے پھولوں کے پنجرے میں قید کرتی ہےیہ اسکی محبت کا دور ہوتا ہے پھر وہ اپنے پِن اسے چبھونا شروع کرتی ہےاور اس کے پھڑپھڑانے سے لطف اندوز ہوتی ہےیہ اس کی سرد مہری کا دور ہوتا ہے اور یہ دیر یا سویر یہ دور بھی ضرور آتا ہےکہ پھر وہ اس کے پَر نوچ کر اور اسکا تجربہ کر کے اسے ان پروانوں کے ذخیرہ میں شامل کر لیتی ہے جن سے وہ اپنے ناولوں کے لئے ہیرو کا کام لیا کرتی ہے۔''
اسکے نزدیک محبت اور وفاداری لازم و ملزوم نہیں۔ طرفین کو ایک دوسرے کے ساتھ آزادی اور رواداری سے کام لینا چاہیے۔ ایک ناول میں ایک شوہر اپنی بیوی کو دوسروں کی آغوش میں دیکھ کر یہ خیال ظاہر کرتا ہے جو حقیقتاً ژورژ کے خیا لات ہیں۔ 
'' میں نے اپنی رائے نہیں بدلی میں نے سوسائٹی سے صلح نہیں کی نکاح تمام اجتماعی طریقوں میں وہ انتہائی وحشیانہ طریقہ ہے جسکا تصور کیا جا سکتا ہے آخر کار یہ طریقہ موقوف ہوجائیگا۔'' اور یورپ میں موقوف ہو گیا ہے۔ 
غالباً سو سال پرانی بات ہے کہ ہائوس آف لارڈ کے ایک رکن نے ایک مرتبہ اپنی جواں سال بیٹی کے سامنے اپنی بیوی کا منہ چوم لیا۔ یہ بات چہار دیواری سے نکلی تو ایوان ِ بالا تک جا پہنچی جہاں لارڈ بہادر موصوف کی سخت مذمت کی گئی ۔ جہاں تک امن و امان کا تعلق ہے تو برطانیہ میں بھی نسلی فسادات یا کبھی کبھی مذہبی تصادم (3) رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ شمالی آئر لینڈ کا علاقہ جسکا مرکز بیلفاسٹ (4)ہے اکثر و بیشتر ہنگاموں کی آماجگاہ بنا رہتا ہے۔ نسلی تصادم کے ساتھ ساتھ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کا اختلاف بھی خونریزی کی شکل اختیا ر کر لیتا ہے ۔ آئی ۔ آر ۔ اے (5)کی ماضی کی سرگرمیاں ایشیا یا افریقہ کے کسی بھی فساد زدہ (6)خطے سے کم نہیں رہی ہے۔ حال ہی میں رومانیہ کے مہاجروں پر جو ظلم و ستم شمالی آئر لینڈ میں جو کہ برطانیہ کا حصہ ہے ڈھایا گیا وہ کسی صورت غیر تر قی یافتہ افریقہ کے نسلی فسادات سے کم نہ تھا ۔بہرحال اتنی لمبی بحث ڈاکٹر موصوف سے کرنے کا وقت نہ ملا لہٰذا میں نے یہ خیالات نذر قارئین کردئیے ۔  
تحریر کے اختتام پر حالات کے تناظر میں چار مصرعے پیش خدمت ہیں۔

قطعہ
اعلامیہ میں نام تک کشمیر کا نہ تھا
دونوں کے درمیان ہے جو اصلی مسئلہ
مانا کہ بات چیت کو جنگ پر ہے فوقیت
آخر مذاکرات کی ہو کوئی انتہا

1, Romantic School of Thought
2, George Sand
3, Racial riots or religious confrontation
4, Belfast
5, Irish Republican Army
6, Seat of Turmoil



1 comments:

Anonymous said...

دقیق

Post a Comment