Wednesday 1 July 2009

سنو ڈونیا حُسن ِ فطرت کا مظہر۔2 پروفیسر سید ارشد جمیل

سنو ڈونیا حُسن ِ فطرت کا مظہر۔2 پروفیسر سید ارشد جمیل
زندہ قومیں اپنے آثار ِ قدیمہ کی دل و جان سے حفاظت کرتی ہیں۔ برطانیہ میں بھی ان آثار کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایک روز ہم ہارلچ قلعہ دیکھنے گئے لیکن شام وقت زیادہ ہو گیا تھا اندر جانے کا وقت ختم ہو گیا تھا لہٰذا باہر ہی سے دیکھ لیا۔ ہمارے قلعے رہتاس، لاہور کا قلعہ ، رنی کوٹ، حیدر آباد کا قلعہ، کوٹ ڈی جی اور قلعہ ملتان وغیرہ خاصے بڑے بڑے قلعے ہیں۔ یہ ہارلچ قلعہ نسبتاً چھو ٹا ہے پتھروں کا بنا ہوا یہ قلعہ زمانے کے دست برد سے اگرچہ کہیں کہیں سے مخدوش تھا لیکن اپنی مضبوطی کے باعث ہنوز سر اُ ٹھائےکھڑا ہے۔
ہارلیچ کے قلعہ کا ایک منظر
کنوائے کا قلعہ البتہ عظیم الشان ہے اور ایڈورڈ اول کے دور کی ایک شاندار تعمیر ہےجیسے گریٹ بر ٹن [عظیم برطانیہ کی سلطنت] کبھی اتنا عظیم تھا کہ اس میں سورج غروب نہ ہوتا تھا لیکن آج کا یوکے مختصر ہونے کے باوجود اپنی مضبوط و توانا روایات کے قدموں پر کھڑا ہے اگرچہ وہ شان اور وہ آن بان تو باقی نہیں رہی لیکن امریکہ کا سہارا دنیا پر دھاک بٹھانے کے لئے کافی ہے یہ دوسری بات ہے کہ امریکہ کے تھنک ٹینک اسکے سرنگوں ہونے کی اور سرداری کی منتقلی کی نوید سنا رہے ہیں نوم چومسکی کا نام اس ضمن میں خاصا مقبول ہے۔ اس نے اپنی ایک کتاب میں امریکہ کو دنیا کا سب سے بڑا دادا گیر قرار دیا ہے۔ جمی کارٹر اپنی کتاب(۱) *میں رزقم طراز ہیں : امریکا داخلی انتظامی حوالے سے شدید بحران کا شکار ہے (ص ۲۳) 35 زیادہ آمدنی والے ملکوں میں ہونے والے مجمو عی قتلوں میں سے ۱۹ گنا زیادہ امریکہ میں ہوتے ہیں گویا سب سے زیادہ قتل امریکہ میں ہوتے ہیں (ص۲۹) امریکی لڑکیاں فرانسیسی لڑکیوں کے مقابلے میں ۷ گنا زیادہ تعداد میں ایک بچے کی ماں ہیں جبکہ یہ ایک مرتبہ اسقاط حمل کرا چکی ہیں۔ ۷۰ گنا زیادہ لڑکیا ں سوزاک کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی کے ٹین ایجرز (۱۳ تا ۱۹ سال کی عمر، اردو زبان میں ایک سے سو تک گنتی میں صرف گیارہ سے اٹھا رہ تک ''ہ'' ہوز لگتی ہے اگر اسے عمر ہائے ہوز کہا جائے تو نا مناسب نہ ہوگا۔) کے مقابلے میں امریکہ کا ٹین ایجرز (عمر ہائے ہوز ۵ گناہ زیادہ ایڈز کا شکار ہوتے ہیں(ص۸۰) جب امریکیوں سے ہم جنس پرستی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو انکی اکثریت اثبات میں جواب دیتی ہے(ص ۳۰) اب طلاق خطرناک حد تک عام ہو چکی ہے۔ تمام امریکی بالغوں میں سے ۲۵ کو کم از کم ایک مرتبہ طلاق ہو چکی ہے (ص۷۵) ۔ (امریکہ کا اخلاقی بحران: جمی کارٹر: مترجم محمد احسن بٹ دار الشعور لاہور- بحوالہ ترجمان القرآن۔جون ۲۰۰۹) پھر اسکی گرتی ہوئی معیشت وغیرہ سے انکے مفکرین کا یہ اندازہ کہ دنیا کی قیادت امریکہ کے ہاتھ سے جانے والی ہے کچھ غلط بات نہیں لگتی۔ عراق اور افغانستان کی جنگ کے اخراجات سے معیشت پر مزید بوجھ اسکے زوال کو اور قریب لا رہا ہے۔ حال ہی میں ایران میں برطانیہ کی مداخلت سے جو یقیناً امریکہ کی شہ پر ہے امریکہ اور برطانیہ سے دنیا کی نفرت اور بڑھے گی۔ برطانوی سفارت خانے کے ملازم جو کہ ایرانی ہیں وہ آلہ کار کے طور پر میر حسن موسوی کے ساتھ ایک نہایت قلیل شہری گروہ کو احمدی نژاد کے خلاف اکسا رہے ہیں۔ آج ہی یہ خبر بھی بی بی سی نے نشر کی کہ وہ گرفتار ہو گئے ہیں یورپی یونین نے انکی رہائی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ دوسری طرف جمہوریت کے ان ناخدائوں کی زبان سے بھاری اکثریت کے بل پر کامیاب ہونے والے شخص کے بارے میں کوئی کلمہَ استحسان نہ نکلا۔ یہ ناخدا اپنی من پسند جمہوریت یا حکومت کے لئے رطب اللسان ہوتے ہیں۔ خواہ وہاں آمریت یا نام نہاد جمہوریت ہو اندر سے چاہے وہ آمریت ہی کیوں نہ ہوجیسا کہ گزشتہ دور میں پرویز مشرف کی حکومت تھی تو یہ اس پر نہ صرف تحسین و آفرین کے ڈونگرے برساتے ہیں بلکہ دامے درمے سخنے ہر طرح مدد فرماتے ہیں۔ یہ مدد تمام کی تمام بالعموم حکمراں طبقہ اور اعلٰی سرکاری افسران کی دست برد سے نہیں بچتی لہٰذا ایسے ممالک غریب کے غریب رہتے ہیں اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے رہتےہیں۔ ایران چونکہ اسطرح کی عیا رانہ چالوں میں امریکہ اور یورپ کی ناز برداری بلکہ صاف لفظوں میں حکم برداری نہیں کررہا ہے لہٰذا یہ انہیں کسےع گوارہ ہو کہ وہ آزاد خارجہ پالیسی آزاد معیشت اور اپنی معاشرت و سیا ست میں خود مختار ہو کر جیئے۔
معذرت کہ آج تو قلم بہت دور جا نکلا ۔ سنوڈونیا کا تذکرہ جاری ہے۔ ہم کنوائے کیسل کو دور سے دیکھتے ہوئے گزر گئے لیکن اندازہ ہوا کہ خاصا بڑا مضبوط اور پائیدار ہے اور اب بھی ایڈورڈ اول کے زمانے کی شاندار تعمیر کا نمونہ ہے۔ سنوڈونیا میں ایک باغ بوڈنینٹ قابل دید جگہ ہے۔ اَسّی ایکڑ کے رقبے پر لگا ہوا یہ باغ انسانی کاوش اور حسنِ فطرت کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ داخل ہوتے ہی ہم دورویہ درختوں سے بنی ہوئی ایک محراب سےگزرے اس میں سروں پر اصلی لیبرنم کے پھول لٹکتی ہوئی شاخوں سے محراب بنا رہے تھے اس محراب سے گزرے اس میں صرف اور صرف پیلے پیلے پھول ہی پھول نظر آتے ہیں۔


راقم، حسن جمیل ایمان جمیل اور فرخ جمیل پس منطر میں لیبر نیم کے پھولوں کی محراب
باغ میں گھاس کے قطعات اطالوی طرز کی روشیں قطعات کے کناروں پر کیاریاں خوبصورت تالاب میں حسین کنول کے پھول۔ شاہ بلوط، سرو، صنوبر، فر، چیری ، ڈیفوڈل ، کمیلیا ، مگنولیا (چمپا کی ایک قسم) رھوڈو ڈینڈران، ایزیلیا اور گلاب کے قطعات نہایت سلیقہ سے لگائے گئے ہیں۔ انکے علاوہ بے شمار اقسام کے پودے انکے نباتاتی ناموں کی تختی کے ساتھ لگے ہوئے تھے راقم نے کیو گارڈن ابھی تک نہیں دیکھا اسکے بارے میں پڑھا اور رسائل میں تصاویر دیکھی ہیں مجھے وہی منظر محسوس ہو رہا تھا سوائے ان گرین ہائو سز کے کہ جو کیو*(۲) کے رائل باٹنیکل گارڈن میں مختلف آب و ہوا پیدا کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ اس باغ کے درمیان سے ایک پہاڑ ی ندی گزر رہی ہے۔

کنول کے پھولوں کا تالاب بوڈنینٹ باغ

جو ایک ہلکے سے آبشار کو جنم دیتی ہے۔ اس باغ میں پکنک ممنوع ہے۔ نیز شراب و سگرٹ نوشی پر بھی پابندی ہے۔ ہمارے ملک میں اگر باغ میں یہ کتبہ آویزاں ہو کہ یہاں کھانا پینا ممنوع ہے تو آپ دیکھتے ہوںگے کہ عین کتبہ کے نیچے لوگ بیٹھ کر کھا پی کر چھلکے اور خالی ڈبے وہیں پھینک کر چلے جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مغربی اقوام نے کچھ قواعد اور روایات مقرر کی ہیں وہ ان پر نہایت سختی سے عمل کرتے ہیں ہم ان کی ان تمام باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور امریکہ و یورپ کے دورے سے یا تعلیم حاصل کرکے اس اعتبار سے خالی لوٹتے ہیں۔ (سنوڈونیا کا تذکرہ جاری ہے)۔



*(۱) Our Endangered Values: America's Moral Crisis
*(۲) Kew





0 comments:

Post a Comment