Saturday 11 July 2009

حُسنِ فطرت کا بے مثال مظہر سنوڈوینا (۳ )پروفیسر سید ارشد جمیل

حُسنِ فطرت کا بے مثال مظہر سنوڈوینا (۳ )پروفیسر سید ارشد جمیل

سنوڈونیا (۱- انگریزی مُترادِفات بلاگ کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں)اغلباً دو الفاظ کا مرکب ہے ایک سنو (۲)یعنی برف اور ڈَون (۳)جس کے معنی پہننے کے یا سر(۴) کے ، گویا برف پوش چوٹی(یہ سارا علاقہ سردیوں میں برف سے ڈھکا ہوتا ہے البتہ یہ چوٹی سردیوں کے اختتام پر موسم گرما کے آغاز میں برف سے ڈھکی ہوتی ہے ہم جون کے آخر میں پہنچے تو برف پگھل چکی تھی ۔ یہ علاقہ نہایت سبز پہاڑوں وادیوں جھیلوں تالابوں اور سبزہ زارمیدانوں پر مشتمل ہے بعض پہاڑ بلندی پر ہر طرف پیلے پیلے پھولوں سے ڈھکے ہوئے تھے حسن کے مشاہدہ کے مطابق پہاڑوں پر سرسوں بوئی ہوئی ہے۔ جبکہ میں نے یہا ں گھروں کے لان میں کثرت سے اُگنے والے خود رو پیلے پھول کے پودوں کو جب قریب سے دیکھا تو دیکھا کہ ریننکیولس (۵)کی ایک قسم ہے ہمارے یہاں نتھیا گلی میں پہاڑوں پر یہ پودا ملتا ہے بالخصوص آبی گذرگاہوں کے کناروں پہ ڈھلانوں کے ساتھ ساتھ وہاں اسے جل دھنیا کہتے ہیں یہ معروف خوردنی دھنیا ہر گز نہیں ہے۔ انگریزی میں اسے بٹر کپ (۶) کہتے ہیں۔ میرا خیال ہے پہاڑی میدانوں میں یہی پودا لگا ہوا ہوگا ۔ قریبی مشاہد ہ کا اتفاق نہیں ہوا۔ اس لئے حسن کے مشاہدہ پر اعتماد کر لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی تحقیق شدہ مشاہدہ نہیں۔ ایک صبح ہلکی ہلکی پھوار میں اپنی قیام گاہ (تال سار نو) سے اسٹیشن کے لئے نکلے ۔ سنوڈونیا پہاڑی ریلوے کے ذریعے اس علاقے کی سب سے اونچی چوٹی کے سفر کے لئے ۔ یہ ریل کراچی میں ماضی میں چلنے والی ٹرام جیسے ڈبے پر مشتمل تھی لیکن انجن وہی قدیم بھاپ سے چلنے والا تھا جس پر ۱۸۸۵؁ کا سن پڑا ہوا تھا اگرچہ بظاہر یہ اسٹیم انجن تھا لیکن اسکے عقب میں ایک جدید ڈیزل انجن نصب تھا۔ کوئیلوں کے ذریعے چلنے والے ایک انجن کو بھی متحرک دیکھا جو ہو بہو بچوں کے کارٹون والے ہینری انجن جیسا تھا۔

سنوڈونیا مائونٹین ریل کا ایک حسین منظر

یہ ہمارے سفر کے بعد روانہ ہوا آدھے گھنٹے کی مسلسل چڑھائی اور 7 (سات )میل کا فاصلہ طے کرکے تقریباً تین ہزارچار سو فٹ کی بلندی پر پہنچے یہاں سے سنوڈونیا پہاڑ کی چوٹی اندازاً سو فٹ بلند ہے جو کوہ پیمائی کے ذریعہ سر کی جاتی ہوگی ۔ لیکن ہماری ریل نے ہمیں وہاں ٹھہرنے اور بلندی و پستی کا نظارہ کرکے لطف اندوز ہونے کے لئے صرف آدھا گھنٹہ دیا۔ پہاڑوں پر سبزہ اتنا گہرا تھا کہ نظر کو دھوکا ہو رہا تھا کہ سبز قالین بچھے ہوئے ہیں۔ اس بلندی کو ہمارے پہاڑوں کی بلندی سے کیا نسبت، کوہ ہندو کش اور کوہ قراقرم اور کوہ ہمالیہ کی بلند چوٹیاں مثلاً کے ٹو ، راکا پوشی ، گیشر برم ، ترچ میر، کن جن چنگا اور کوہِ ایورسٹ جو ۲۰ (بیس) ہزار فٹ سے ۲۹ (انتیس) ہزار فٹ کی بلندی کو چھو رہی ہیں اور دنیا کی بلند ترین چوٹیا ں ہیں۔

چہ نسبت کوہ ِ انگلستاں بہ کوہِ ایشیائی ؏

گوگل کے مطابق برطانیہ کی بلند ترین چوٹی سنوڈونیا ہے جبکہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ما ئونٹ ایوریسٹ ہے جو سنوڈونیا سے آٹھ گنا بلند ہے۔ دنیا میں زمینی بلندی اور پستی ملک یا خطۂ زمین کے باشندوں کی پستی اور بلندی کا مظہر نہیں ہوتی قوموں کی بلندی انکے اخلاق و کردار اور محنت پر مشتمل ہے عظمتِ قومی کے لئے اتفاق و اتحاد عدل و انصاف اور دیگر اقوام کے ساتھ سچا منصفانہ رویہ لازم وملزوم ہیں۔ آج مشرقی اقوام کی اکثریت جو پستی کا شکار ہیں تو غور طلب بات یہ ہے کہ پستی کے اسباب پر تحقیق و تحسس کی جائے اور جو امور اختیار کرنے لازم ہیں انہیں اختیار کیا جائے اور جو اور ترک کرنا ضروری ہیں انہیں قومی سطح پر ترک کرنا چاہیے۔ عملی استحکام اسی ترک و اختیار کا نام ہے جوقوموں کی بقا کا ذریعہ ہے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

مستحکم عمل کی ایک مثال ۲۶ جون کو دیکھنے میں آئی ناسا (۷) اور ایسا (۸)کی ایک مشترکہ کاوش یولیسِس (۹)ایک مصنوعی سیارہ جو آج سے اٹھارہ سال قبل خلاء میں چھوڑا گیا تھا جون کی ایک آخری شام شہابیوں اور قدرتی سیارچوں کی فہرست میں شا مل ہوگیا، جاتے جاتے کچھ نئی باتوں کی اطلاع دیتا گیا ۔ اول یہ کہ سورج کا مقناطیسی میدان نظامِ شمسی میں زیادہ پیچیدہ انداز میں رواں ہے گذشتہ تصورات سے کہیں زیادہ وسیع اور تمام نظام شمسی پر محیط ہے۔ دوم سورج سے خارج ہونے والے ذرات پہلے بلند طول البلد(۱۰) کی طرف چڑھتے ہیں پھر پست طول البلد کی طرف گرتے ہیں اور پھر غیر متوقع طور پر نظام ِ شمسی کے سیاروں کی طرف پھیل جاتے ہیں۔ اسطرح خلا پیمائوں کو مضر ذراتِ خلائی سے زیادہ سابقہ پڑتا ہے۔ یولیسِس (۹)یورپ اور امریکہ کی مشترکہ کاوش اپنے منصوبہ سے چار گنا زیادہ عرصہ تک کارفرما ئی کرتا رہا یعنی ساڑھے چار سال کے بدلے اٹھارہ سال چھ ماہ تک کام کرتا رہا ۔ رچرڈ مر سڈن مصنوعی سیارہ مشن کے سائنسدان اور منیجر کا کہنا ہے کہ یہ استحکام پائیداری اور مضبوطی درا صل بنانے والوں کی مہارت اور لگن اور ہنر مندی نیز مسلسل اسکی خامیوں کی اصلاح کرتے رہنے کی وجہ سے ہے۔ اسے الوداعی سلام (۱۱) کہنے کےلئے اس مشن کی ساری ٹیم ناسا(۷)میں جمع ہوئی تھی۔اللہ تعالٰی نے زمین کے ہر خطے اور ہر علاقے کو اپنے اپنے طرز کا حُسن عطا کیا ہےپہاڑوں کے بر عکس صحرائوں کا حُسن حقیقتاً انکی ہیبت سے زیادہ دلکش ہے۔ دور تک پھیلی ہوئے ریت اسمیں جگہ جگہ صحرائی ٹیلے اور ان ٹیلوں کے دامن میں گھاس اور جھاڑیاں اور پھر کہیں کہیں نخلستان (۱۲)۔ صحرا کی گردن میں حمائل سبزہ و گل ، ہار(۱۳)کا منظر پیش کرتے ہیں۔ الصحرا(۱۴) کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے نخلستان میں کھجور اور کیکر یا مغیل (عربی میں تمر اور اقاقیہ عربی) کے درخت ہجوم در ہجوم بمعہ سبزہ َ زیریں درسایہ ٔ شجر (۱۵)نظر آتے ہیں۔

بقول شاعر انِ ذی وقار ۔۔۔

۱۔؏ شام کے صحرا میں ہو جسے ہجوم نخیل

علامہ اقبالؔ

۲۔ ؏ موجِ صبا نے لوری دے کر کتنے سادہ رو پھولوں کو

خارِ مُغلیاں کی سیجوں پر میٹھی نیند سلا رکھا ہے

سید عابد علی عابد

بات مغیل یا کیکر کی چل نکلی ہے عربی میں اسے اقاقیہ کہتے ہیں اور بائیلوجی کا نام آکیشیا عربیہ(۱۶) ہے اسکے سایہَ میں ننھے منھے پھولوں کے پودے اور مختصر بیلیں تھکے ماندے مسافروں کی مانند پیر پسارے لیٹی ہوئی ہوتی ہیں جسکی طرف عابد ؔ نے اشارہ کیا ہے۔

پھول کی مُسکاں میں پنہاں زندگی کا راز ہے

حسنِ فطرت کی نمائش کا حسیں انداز ہے

۔۔۔۔ ارشدؔ جمیل

اگرچہ یہاں بیشتر مقامات قابل دید تھے لیکن ہم نے واپسی کے سفر کے لئے روانگی سے قبل صرف گرین وڈ فاریسٹ پارک دیکھا جو ایک طرف قدرتی جنگل معلوم ہوتا تھا تو دوسری طرف ایک خوشنما خوبصورت سجی سجائی تفریح گاہ بھی تھی کہ جس میں بچوں ،جوانوں اور ادھیڑ عمر کے لوگوں کے لئے تفریح کا سامان ڈریگن ریل، کشتی رانی ، تیر اندازی، تین پہیوں کی سائیکل کا ٹریک، بچوں کے لئےچھوٹے الیکٹرک ٹرک، پیدل سفر کی پگڈنڈیاں اور بچوں کے لئے سی سا(۱۷)جھولے ۔ پائپ ٹنل ۔ اور طرح طرح کے کھیل کے علاوہ مسخرہ(۱۸)کا تماشا بھی پارک کے بند ہونے تک جاری رہتا ہے۔ اس جنگل نما باغ میں بھی پھولوں اور درختوں پر بائیلوجی کے نام کی تختیاں لگیں تھیں۔ یہاں راقم ،ایمان اور ایمان کی دادی کو دہشتناک ڈریگن ٹرین میں بیٹھنے سے روک دیا گیا اسطرح ہم ایک خوفناک تفریح سے بچکر گھر لوٹ آئے ۔ اور یوں حسین سنوڈونیا کا دلربا سفر اختتام پذیر ہوا۔


۱)Snowdonia
۲)snow
۳) Don
۴)head
۵) Ranunculus
۶) buttercup
۷) (NASA)
۸) (European Space Agency) ESA
۹)Ulysses
۱۰) (Latitude)
۱۱) (Goodbye)
۱۲) (Oasis)
۱۳) (Garland)
۱۴) (Sahara Desert)
۱۵)(Under Arboreal shade vegetation)
۱۶) Accacia Arabia
۱۷)Sea-Saw
۱۸) (Clown)
آپ کی تجاویز اور تبصرہ یقیناً اہم ہیں۔ امید ہے آپ بھی اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ حسن جمیل

0 comments:

Post a Comment