Wednesday 29 July 2009

عبرت کدہ، کلیولینڈ شو مڈلز برا-پروفیسر ارشد جمیل

ایک عجیب و غریب نقشہ ایک فنکار کے نگار خانے میں سجا ہوا ہے وہاں کبھی کبھی حیرت انگیز واقعات رونما ہو جاتے ہیں غوری بڑا ماہر مجسمہ ساز ہے جہاں وہ اپنے فن کو تحیلاتی طور پر مُتشکِّل کرتا ہے یعنی اپنے تصورات میں بسی ہوئی حسین دنیا کو چوبی(لکڑی کے بُت)( 1 )مجسموں کی شکل میں اتارتا ہے۔ وہیں وہ بڑے بڑے جغادری لیڈروں ، آمروں اور حکمرانوں کے مجسمے بھی بناتا ہے اور ان مجسموں کو فروخت نہیں کرتا بلکہ انہیں اپنے فنکدہ کے ایک نیم تاریک کمرے میں (جہاں تازہ ہوا کا گذرقطعی نہیں)نصب کرتا ہے کہتا ہے "یہ عبرت کدہ ہے جس طرح اہرامِ مصر کی ممیاں فروخت کرنا خلافِ قانون ہے یا ہمارے ملک کا کوئی نادر تاریخی مجسمہ آثارِقدیمہ کے قوانین کے مطابق ریاست یا کسی میوزیم کی ملکیت ہوتا ہے اور اسکی خریدو فروخت قانوناً جرم ہے ایسے ہی میں اپنے عبرت کدے کے مجسموں کو فروخت کرنا اپنے ضمیر کے خلاف سمجھتا ہوں"۔سنا ہے دن بھر ساکت و صامت جامد اور بے حِس و حرکت مجسمے رات کو اپنی بھٹکی ہوئی روح کی چند ساعتوں کی آسودگی کے باعث کہ جو ان میں آ گھستی ہے یہ متحرک و گویا ہو جاتے ہیں۔ غوری صاحب نے خود تو نہیں البتہ انکے ایک دوست نے جو ہمارے بھی شناسا ہیں بتایا کہ ایک رات غوری صاحب دیر تک نقاشی و چوب تراشی کا کام کرتے رہے تھک کر عبرت کدہ کے دروازے کے قریب صوفہ پر نیم دراز ہو گئے۔ یہ ایک زندہ مرد آہن کا مجسمہ تراش رہے تھے جو ابھی نا مکمل تھا۔ اچانک اندر سے کھسر پھسر کی آوازیں سنائی دیں۔ ایک با رُعب قدآور مجسمے نے اپنے فوراً بعد گدی سنبھالنے والے اور مکان کو توڑ کر دو ٹکڑے کر دینے کے بعد عبرت کدے کی زینت بننے والے سے پوچھا یہ کون ہے کہ ابھی ہماری بزمِ مردانِ آہن میں آیا بھی نہیں ہے کہ سب اسے دروازے کے باہر ہی مبارکباد دے رہے ہیں۔ مسئول نے اٹینشن ہو کر کہا سر ! یہ ہماری سر زمین کا آخری مردِ آہن معلوم ہوتا ہے۔ سائل موصوف نے پوچھا اس نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے ۔ مسئول نے پھر اٹینشن ہو کر کہا سر ! اِس نے سر زمینِ مُظلوم پر دو مرتبہ کلہاڑا چلایا ۔ آئین کو اور ترمیمات کے پشتارے میں تمام شریفانہ اطوار کو بند کردیا۔ پارڈن سر آپ سے ڈبل اور میرے جیسا کارنامہ انجام دیا ہے دیر یا سویر یہ ہماری بزمِ مردان آہن میں آنے والا ہے اس نے رنگ برنگی بھیڑوں اور بکریوں کو بھی جو دُم دبا کر ہمارے پیچھےچلتی تھیں قتل کیا اور حبس زدہ باڑے میں قید کر دیا اور حسبِ ضرب المثل باقی ماندہ بھیڑوں کو اپنے پیچھے چلنے کا حکم صادر فرما دیا تھا ابھی بات چیت جاری تھی کہ فنکار کی آنکھ لمحہ بھر کو جھپک کر کُھل گئی ۔ دوست کی اس پُر فریب منظر کشی پر اور حالات حاضرہ کے تناظر میں (یعنی عدالتوں کے اندر کے حالات پر ) چار مصرعے حاضر ہیں۔
؏ امید ہے مقتول کو قاتل سے رحم کی
ہوگا بڑا یہ ظلم وہ کر دے اگر معاف
کل اس نے ان سے مند ِ انصاف کی تھی سلب
پرواں چڑھایا ملک میں تفریق و اختلاف
کہتےہیں بلی بھی اپنے گھر پر شیر ہوتی ہے۔ اگر محاورہ میں ذرا سی تبدیلی کی جائے اور اسکا اطلاق بھیڑ بکریوں پر کیا جائے تو جن بھیڑ بکریوں کا خون یہ مرد آہن چوستا رہا ان مین سے چند اعلٰی نسل کے اصیل بکروں نے اسکی قید سے آزاد ہو کر اپنے گھر (باڑے) پہنچ کر مل جل کر آخری مردِ آہن کو اپنے سینگوں پر اٹھا کر پھینکنے کا عزم کیا ہے۔ گویا اب یہ بھیڑ، بکری اور بکرے اپنے گھر پر شیر ہو گئے ہیں اور خون کا بدلہ خون کی ضرب المثل سچی ہونے والی ہے۔ البتہ خطرہ اگر ہے تو جمہوریت کے نام نہاد نام لیوائوں سے، عدل وا نصاف اور غریب ملکوں کے جھوٹے سر پرستوں اور عالمی بستی کے ظالم ناخدائوں سے ہے کہ جن کی سر پرستی میں یہ ظالم اور غاصب مردان آہن غریبوں کا خوط چوستے رہے ہیں۔
قلم آرٹسٹ غوری کے عبرت کدے میں الجھ گیا حالانکہ لیک ڈسٹرکٹ (کائونٹی) اور کلیو لینڈ (2)شو کا تذکرہ کرنا تھا ۔ تو پہلے شو کا ذکر کرتے ہیں۔ اس مرتبہ اس نمائش کو ایمان ، ہانیہ ، میں ، ایمان کی امی(ایمان اپنی دادی کو امی اور مجھے ابو کہتی ہے)،مما اور چچی دیکھنے گئے۔ یہ نمائش مڈلز برا کے علاقے مارٹن میں ایک پارک، اسٹیوارٹ پارک میں لگی تھی مارٹن کبھی مڈلز برا کے نواح میں ایک گائوں ہوتا تھا جسکے ایک حصے میں کیپٹن جیمز کُک ایک مشہور جہاز راں اور برطانوی نیوی کا ایک کامیاب افسر رہتا تھا۔ جس نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے کئی سفر کئے اور بحری راستوں کے نقشے تیار کئے ۔ ہوائی جزائر کے بھی سفر کئے اسکی جائے پیدائش پارک کے ایک کونے میں تھی جو اب گردشِ زمانہ اور موسموں کی دست برد سے معدوم ہوگئی تھی البتہ وہاں ایک میوزیم بنا دیا گیا ہے۔ ۱۲۰ ایکڑ پر یہ پارک اسٹیوارٹ نے مڈلز برا کائونسل کو ۱۹۲۸؁ ء میں عطیہ کیا تھا اور اسے عام پبلک کی تفریح کے لئے وقف کر دیا تھا ہمارا حال یہ ہے کہ جو پارک بنے بنائے ہیں انہیں مٹا کر زمین ہضم کرلی جاتی ہے۔ شو میں گھو ڑوں کی تازہ دم تندرست مضبوط اور خوشنما بدن اٹھکھلیاں کرتی ہوئی ایک ٹیم ایک بڑے احاطے میں چکر لگا رہی تھی ۔ برابر میں اونٹ اور زرافے کے ربڑ یا غالباً پلاسٹک کے بنے ہوئے درازیٔ قد کا مظاہرہ ہوا کے چلنے سے گردن ہلا ہلا کر کرہے تھے نقل مطابق اصل تھی ۔ شو میں اسکول کے طلبا وطالبات نے جمناسٹک کا مظاہرہ کیا راقم کی معلومات اس میدان میں صفر ہیں بس یہ سمجھ میں آیا کہ یہ قلابازی نظم و ضبط اور تربیت کے ساتھ اچھل کود اور جسم کومختلف زاویوں سے موڑنے کافن ہے جو یہ ٹیم نہایت سبک رفتاری چابک دستی اور پھرتیلے پن سے سر انجام دے رہی تھی چھوٹے لڑکے لڑکیوں کے تو جسم میں معلوم ہوتا تھا کہ ہڈی ہی نہیں ہے۔ البتہ یورپ کے مزاج میں جو رقص و سرود اور طائوس و رباب رچا بسا ہے اسکی جھلک ان ورزشی کھیل کود میں بھی موجود تھی۔ حالانکہ یہ اسکے بغیر بھی اپنی کشش اور افادیت برقرار رکھ سکتے ہیں۔ غالباً اہل ِ مغرب اپنی تقدیر کے آخری مراحل طے کررہے ہیں۔ بقول اقبال 
؏ میں تجھکو بتاتا ہوں میں تقدیر ِ امم کیا ہے۔
شمشیر و سناں اول طائوس و رباب آخر
زراعت اور باغبانی کا ایک مختصر کیمپ تھا علاوہ ازیں ایک ایجوکیشن کا کیمپ بھی مختصر سا تھا ۔یاد آیا کہ ٹیز سائیڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ڈاکٹر مبشر صاحب ایک ملاقات میں فرمارہے تھے کہ برطانیہ میں ۳۵ میڈیکل کالج اور ۱۳ ڈینٹسڑی کی یونیورسٹیا ں ہیں۔ موصوف بتا رہے تھے کہ مڈلز برا کے کپڑے کی صنعت کے اور بعض دیگر کارخانے بند پڑے ہیں، وجہ مزدوری مہنگی ہو گئی لاگت زیادہ آنے لگی مال کے دام بھی بڑھ گئے وہی چیز چائنا سے سستی مل جاتی ہے لہٰذا کارخانے بند ہوگئے۔ایک نہایت چھوٹے سے کیمپ میں سانپوں کی چند اقسام تھیں ایک لڑکی اپنے ننگے بازوئوں پر ایک موٹے سانپ کو لپٹائے ہوئے تھی بچوں اور بڑوں کو اسے چھونے کی ترغیب دلارہی تھی ۔ آستین اس لئے غائب تھیں کہ مار آستین کہیں آستین میں نہ آجائے غالباً انگریزی میں اسنیک آف دی سلیوز (3) کا مہاورہ مستعمل نہیں ہو گاورنہ شیکسپیر کبھی بھی سیزر کی زبان سے یہ نہ کہلواتا "یو ٹو بروٹس تو ٹو"(4)۔ زراعت وباغبانی کا ایک وسیع و عریض کیمپ بھی لگا ہوا تھا۔ جس میں بونسائی(5) اور کیکٹس (6)(زقوم۔ تھوہر) کی کچھ نایاب اقسام دیکھنے کو ملیں۔ دیہی (7)ورثہ کے طور پر دیہی مرغیاں خرگوش بطخ سارس (8) اور بگلے بھی موجود تھے۔ زراعت وباغبانی کے کیمپ میں پھولوں کی اقسام دیکھ کر راقم کو اپنے محبوب شہر شہرِ بے نظیر آباد (نواب شاہ) میں خوجہ گارڈن کی پھولوں کی نمائش اور سائنس فیئر یاد آگئے یہ پروفیشنل اور نان پروفیشنل فلاور لگانے والوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا اور راقم اکثر منصف (جج) ہوا کرتا تھا لیکن یہاں دیارِ غیر اپنا یہ حال ہے ۔ 
؏ پھرتے ہیں میر ؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
رنگ برنگے پھولوں نے حُسن و رعنائی کا وہ دلربا منظر پیدا کیا تھا کہ نظر ہٹانے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ مڈلز برا کی نرسریوںاور پارکوں میں جتنی اقسام کے آکڈ (9) سوسن (للیز ) (10) ،فوکشیا (11) کے شفتا بی گلابی آسمانی جامنی پیلے اور اودے رنگوں کے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے گہرا سرخ گلاب سیاہی مائل تھا جسے کالا گلاب کہا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ زرد سرخ گلابی سفید گلاب اور بے شمار اقسام کے پھول اپنی چمک دمک آپ و تاب اور کشش لاجواب کے ذریعہ نظروں کی راہ سے دل میں اُترتے چلے جاتے تھے۔ انہی پھولوں کی پتیوں کی رعنائی و تابناکی کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔ 
؏ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر 
مرد ِ ناداں پر کلام ِ نرم و نازک بے اثر
لِتھاپس(12) (پتھروں جیسے پودے) کی جتنی اقسام یہاں دیکھیں اسی موسم ِ بہار میں کراچی کے ساحل سمندر پر دیکھیں اور مقابلہ برابر ہی رہا۔ بونسائی کا مجموعہ دو سال قبل فریئر ہال کے لان میں جو دیکھا وہ اب تک کے مظاہروں سب سے لاجواب تھا پائینس ، فائیکس ، فر ، ایلم ، چنار(یہ پہلی بار دیکھا ہے) تھوجا اور جونیپر ڈھائی انچ سے لے کر ڈھائی فٹ کے سائز میں موجود تھے اور بہت ہی عمدہ تھے ۔ اسی طرح کیکٹائی (13) کے بونسائی بھی بہترین تھے ۔ 
بچوں کی دلچسپی کے لئے برقی جھولے ، برقی گھوڑے ، بلند و بالا نیم دائروں میں جھکائو دیتی ہوئی ٹرین اک خوف کا سماع پیدا کرتی ہوئی دوڑتی دیکھی۔بچوں کے شور و پکا ر پر مبنی یہ تماشا بھی ایک عجیب نظارہ تھا جو والدین اور بچوں یا تنہا بچہ اور تنہا والدیا والدہ اس پُر کشش مظاہرہ میں شریک ہو کر یا دیکھ کر ہی لطف اندوز ہو رہے تھے۔صفائی کا نہایت عمدہ اور معقول انتظام تھا اور سیکیورٹی بھی بہترین تھی۔
(1) Wooden statue (2) Cleveland (3) snake of the sleeves (4) you Brootus too (5) Bonsi (6) cactus (7) Rural culture (8) Cranes or king stork (9) orchid (10) lilies (11) Fucshia (12) lithops (13) cacti 

0 comments:

Post a Comment